Friday 31 July 2015

اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے

اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے
اب سبک دوش کرے یوں کہ مِرا سر کاٹے
صبحِ آلام، شبِ غم، کوئی کیوں کر کاٹے
دن مصیبت کے کہاں تک دلِ مضطر کاٹے
بے ستوں سے یہ ابھرتی ہے صدائے شیریں
کوئی فرہاد بنے، تیشے سے پتھر کاٹے
اس سے پوچھے کوئی ایامِ اسیری کا عذاب
زندگی اپنی جو صیّاد کے گھر پر کاٹے
نہ مِلا تُو، نہ ملاقات کی صورت نکلی
مدتوں ہم نے تِرے شہر کے چکر کاٹے
زُلف وہ سانپ، کہ لَوٹے ہے تِرے قدموں پر
غیر کے شانوں پہ بکھرے، تو برابر کاٹے
موت اچھی، کہ پسِ مرگ سکوں مِلتا ہے
زندگی کون شب و روز تڑپ کر کاٹے
ایسے وحشی کا اگر ہو تو ٹھکانہ کیا ہو
دشت میں جس کو نہ چین آئے، جسے گھر کاٹے
ساقئ کوثر و تسنیم سے نِسبت ہے نصیرؔ 
کیوں نہ دنیا مِرے مے خانے کے چکر کاٹے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment