اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے
اب سبک دوش کرے یوں کہ مِرا سر کاٹے
صبحِ آلام، شبِ غم، کوئی کیوں کر کاٹے
دن مصیبت کے کہاں تک دلِ مضطر کاٹے
بے ستوں سے یہ ابھرتی ہے صدائے شیریں
اس سے پوچھے کوئی ایامِ اسیری کا عذاب
زندگی اپنی جو صیّاد کے گھر پر کاٹے
نہ مِلا تُو، نہ ملاقات کی صورت نکلی
مدتوں ہم نے تِرے شہر کے چکر کاٹے
زُلف وہ سانپ، کہ لَوٹے ہے تِرے قدموں پر
غیر کے شانوں پہ بکھرے، تو برابر کاٹے
موت اچھی، کہ پسِ مرگ سکوں مِلتا ہے
زندگی کون شب و روز تڑپ کر کاٹے
ایسے وحشی کا اگر ہو تو ٹھکانہ کیا ہو
دشت میں جس کو نہ چین آئے، جسے گھر کاٹے
ساقئ کوثر و تسنیم سے نِسبت ہے نصیرؔ
کیوں نہ دنیا مِرے مے خانے کے چکر کاٹے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment