Thursday 30 July 2015

کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں

کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں
دل کی دھڑکن ہے کہ آسیب بلا ہے دل میں
اب کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو بھلا تم اس کو
وہ تو آنکھوں کی نمی بن کے چھپا ہے دل میں
خشک آنکھوں کو ابھی رونے کی حسرت ہے بہت
اس کو تھمنے دو، جو کہرام مچا ہے دل میں
اتنے سناٹے میں آواز کا دَم گھٹتا ہے
اور ایسے میں بھی اک حشر بپا ہے دل میں
وہ جدا ہو کے کچھ اس درجہ قریب آ پہنچا
اب تو بس ایک وہی ہے کہ بسا ہے دل میں
اتنی سنسان ڈگر ہے، کہ تکے جاتا ہوں
کوئی رستہ تِرے رستے سے ملا ہے دل میں
تُو گیا ہے تو مجھے میرا پتا دے جاتا
خود مجھے جیسے کوئی ڈھونڈ رہا ہے دل میں
دشتِ جاں میں ہے شبِ تار بھی آندھی بھی متین
ایک غم ہے کہ دِیا 🪔جس کا جلا ہے دل میں

اقبال متین

No comments:

Post a Comment