Sunday 26 July 2015

یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا

یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا
ملیں محشر میں مجھ عاصی کو صدقہ کبریائی کا
یہ مجھ سے سخت جاں پر شوق خنجر آزمائی کا
خدا حافظ مِرے قاتل! تِری نازک کلائی کا
تم اچھے، غیر اچھا، غیر کی تقدیر بھی اچھی
یہ آخر ذکر کیوں ہے میری قسمت کی برائی کا
وہ کیا سوئیں گے غافل ہو کے شب بھر مرے پہلو میں
انہیں یہ فکر ہے نکلے کوئی پہلو لڑائی کا
اشارے پر تِرے چل کر یہ لائے رنگ مشکل ہے
ابھی محتاج ہے خنجر تِرے دستِ حنائی کا
کوئی کیا جائے جنت میں کہ اس نے طول کھینچا ہے
قیامت پر بھی سایہ پڑ گیا روزِ جدائی کا
بنائی کیا بری گت میکدے میں بادہ نوشوں نے
ریاضؔ آئے تھے کل جامہ پہن کر پارسائی کا

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment