گیت بیاد انشاء جی
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشأ جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشأ جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہ پھیرو گے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشأ جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشأ جی
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشأ جی
اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشأ جی
نہیں صرف ”قتیلؔ“ کی بات یہاں، کہیں ”ساحر“ ہے کہیں ”عالی“ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشأ جی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment