پیاس وہ دل کی بجھانے کبھی آیا بھی نہیں
کیسا بادل ہے جس کا کوئی سایہ بھی نہیں
بے رُخی اس سے بڑی اور بھلا کیا ہو گی
ایک مدّت سے ہمیں اس نے ستایا بھی نہیں
روز آتا ہے درِ دل پہ وہ دستک دینے
سن لیا کیسے خدا جانے زمانے بھر نے
وہ فسانہ جو کبھی ہم نے سنایا بھی نہیں
تُم تو شاعر ہو اور وہ اک عام سا شخص
اس نے چاہا بھی تمہیں اور جتایا بھی نہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment