Saturday, 30 April 2016

تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے

تنِ تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے رقیبوں سے غموں سے غمگساروں سے
انہیں میں چھین کر لایا ہوں کتنے دعویداروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
سنے کوئی، تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
پہاڑوں سے گپھاؤں سے بیابانوں سے غاروں سے

اس طرح محبت میں دل پہ حکمرانی ہے

اس طرح محبت میں دل پہ حکمرانی ہے
دل نہیں میرا گویا ان کی راجدھانی ہے
گھاس کے گھروندے سے زور آزمائی کیا
آندھیاں بھی پگلی ہیں، برق بھی دیوانی ہے
شاید انکے دامن نے پونچھ دیں مِری آنکھیں
آج میرے اشکوں کا رنگ زعفرانی ہے

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
پھر یہ بارش مِری تنہائی چرانے آئی
زندگی باپ کی مانند سجا دیتی ہے
رحمدل ماں کی طرح موت بچانے آئی
آج کل پھر دلِ برباد کی باتیں ہیں وہی
ہم تو سمجھے تھے کہ کچھ عقل ٹھکانے آئی

جگر کی آگ بجھے جلد جس میں وہ شے لا

جگر کی آگ بجھے جلد جس میں وہ شے لا
لگا کے برف میں ساقی صراحیٔ مئے لا
قدم کو ہاتھ لگاتا ہوں، اٹھ کہیں گھر چل
خدا کے واسطے اتنا تو پاؤں مت پھیلا
نکل کے وادیٔ وحشت سے دیکھ اے مجنوں
کہ زور دھن میں اب آتا ہے ناقۂ لیلا

دل ستم زدہ بے تابیوں نے لوٹ لیا

دلِ ستم زدہ بے تابیوں نے لُوٹ لیا
ہمارے قِبلہ کو وہابیوں نے لوٹ لیا
کہانی ایک سنائی جو ہیر رانجھا کی
تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
یہ موجِ لالۂ خود رو، نسیم سے بولی
کہ کوہ و دشت کو سیرابیوں نے لوٹ لیا

غلط معانی دئیے جاتے ہیں زیر لب تبسم کو

غلط معانی دئیے جاتے ہیں زیرِ لب تبسم کو 
سمجھ پاۓ نہ اب تک لوگ اس خاموش قلزم کو 
بڑا دھوکا دیا ہم کو ہماری خوش خیالی نے 
نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے نگاہوں کے تصادم کو
محبت میں خطائیں ایک جانب سے نہیں ہوتیں 
نہ تم الزام دو ہم کو، نہ ہم الزام دیں تم کو 

کچھ ایسے زخم بھی درپردہ ہم نے کھائے ہیں

کچھ ایسے زخم بھی درپردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رقیبوں سے بھی چھپائے ہیں
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
بس اک ضمیر بمشکل بچا کے لائے ہیں
اب آ گئے ہیں تو پیاسے نہ جائیں گے ساقی
کچھ آج سوچ کے ہم مے کدے میں آئے ہیں

صد شکر اتنا ظرف مری چشم تر میں ہے

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ

صد شکر اتنا ظرف مِری چشم تر میں ہے
دیکھے بغیر سارا مدینہ نظر میں ہے
پہلا سفر مدینے کا میں کیسے بھول جاؤں
سارا وجود میرا ابھی تک سفر میں ہے
یادِ دیارِ پاک ہے اب جزوِِ زندگی
ہر منظرِ جمیل ابھی تک نظر میں ہے

Friday, 29 April 2016

ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے

ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے
اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے
ایک زہرابِ غم سینہ سینہ سفر
ایک کردار سب داستانوں کا ہے
کس مسلسل افق کے مقابل ہیں ہم
کیا عجب سلسلہ امتحانوں کا ہے

میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا

میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
اک اور حادثہ مجھ پر گزرنے والا تھا
کہیں سے آ گیا اک ابر درمیاں، ورنہ
مِرے بدن میں یہ سورج اترنے والا تھا
مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے
سکوتِ شب کی طرح میں بکھرنے والا تھا

ترا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے

تِرا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے
یہ کیسا جال سا پھیلا ہوا ہے
خوشی سے دے فریبِ زندگانی
کہ تجھ پر اعتبار آیا ہوا ہے
ازل سے ہے پریشاں زندگانی
یہ عقدہ کس کا الجھایا ہوا ہے

نہ سہی ساز غمساز تو ہے

نہ سہی ساز غمساز تو ہے
زندگی کا کوئی انداز تو ہے
کچھ گریزاں ہے صبا ہی ورنہ
بوئے گل مائلِ پرواز تو ہے
بن سکے سرخیٔ رودادِ حیات
خونِ دل اتنا پس انداز تو ہے

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی، مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا

سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی

سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی
بے نتیجہ بے ثمر جنگ و جدل سود و زیاں
ساری جیتیں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبار زرگری
سب کی دہشت ایک جیسی سب کی گھاتیں ایک سی

اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں

اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں
کوئی آنسو تیرے دامن پر گِرا کر
بوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں

نگاہوں کا اثر کام آ رہا ہے

نگاہوں کا اثر کام آ رہا ہے
کوئی اڑتا ہوا جام آ رہا ہے
خدارا اپنے جلوؤں کی خبر لو
مِری نیت پہ الزام آ رہا ہے
پھر آنے کو ہیں دن رسوائیوں کے
زباں پر پھر تِرا نام آ رہا ہے

کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے

کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے
ہجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یونہی کبھی شامِ وصال آ جائے
گھر اسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی ادھر میرا غزال آ جائے

سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے

سرِ صحرا مسافر کو ستارا یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جا تی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے
محبت اور نفرت اور تلخی اور شیرینی
کسی نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے

فضا کو دیکھ کے ذوق نظر پہ کیا گزری

فضا کو دیکھ کے ذوقِ نظر پہ کیا گزری
نہ پوچھئے ہوسِ بال و پر پہ کیا گزری
تمہیں کچھ اس کی خبر بھی ہے اے چمن والو
سحر کے بعد نسیمِ سحر پہ کیا گزری
یہ کاز تجھ کو بھی ذوقِ نظر بتا سکتا
تِری تلاش میں ذوقِ نظر پہ کیا گزری

کبھی بلندی ذوق نظر تک آ پہنچی

کبھی بلندیٔ ذوق نظر تک آ پہنچی
کبھی حیاتِ غم بال و پر تک آ پہنچی
فغاں کہ مل کے بھی ہم تم اسے نہ روک سکے
شبِ وصال حدودِ سحر تک آ پہنچی
نظر سے بڑھ کے زباں تک کہیں نہ آ جائے
جہانِ دل کی کہانی نظر تک آ پہنچی

جستجو ہی جستجو بن جائیں گے

جستجو ہی جستجو بن جائیں گے
تجھ سے بچھڑے تو بہت پچھتائیں گے
ذکر سے بھی جن کے کتراتے ہیں لوگ
کل یہ قصے داستاں بن جائیں گے
منتظر آنکھیں لیے بیٹھے رہو
ساتھ میں منظر لیے ہم آئیں گے

بہت ہوا رو دیتے تھے

بہت ہُوا، رو دیتے تھے
تم بھی کتنے سچے تھے
پہلے یہاں آبادی تھی
بستی والے کہتے تھے
ہم بھی اک دن دنیا کو
آگ لگانے نکلے تھے

راستہ اس کا جو روکے گا وہ مر جائے گا

راستہ اس کا جو روکے گا وہ مر جائے گا
وقت دریا ہے بہر طور گزر جائے گا
ذہن میں اتنی بھی تشکیک نہ رکھی جائے
عشق پانی تو نہیں ہے کہ اتر جائے گا
دوستو! بھائیو! نیکی کے لیے کچھ کیجو
خیر آئے گی تو اس شہر سے شر جائے گا

سب کا پیرایہ اظہار بدل جاتا ہے

سب کا پیرایۂ اظہار بدل جاتا ہے
منہ میں لقمہ ہو تو پندار بدل جاتا ہے
گام دو گام پہ ہوتی ہے جب اپنی نصرت
تو ہمارا سپہ سالار بدل جاتا ہے
جب کبھی ہم کسی معیار پہ پورے اتریں
ایسا ہوتا ہے وہ معیار بدل جاتا ہے

ہم کہاں شیریں سخن ہیں تلخیاں اتنی کہ بس

ہم کہاں شیریں سخن ہیں، تلخیاں اتنی کہ بس
یوں اڑائیں وقت نے بھی دھجیاں اتنی کہ بس
مفلسوں کے آرزو بھی حسرتوں کی آگ ہے 
اب جلائی جا رہی ہیں لڑکیاں اتنی کہ بس
اک ذرا سا لب ہلے اور کتنے اپنے کٹ گئے 
اب زبانیں بن گئیں ہیں قینچیاں اتنی کہ بس

وہ حادثہ عجیب تھا جو ہو گیا سو ہو گیا

وہ حادثہ عجیب تھا، جو ہو گیا سو ہو گیا 
یہی مِرا نصیب تھا، جو ہو گیا سو ہو گیا 
فسادیوں کے ظلم سے امیر سب بچے رہے 
لٹا پٹا غریب تھا،۔ جو ہو گیا سو ہو گیا
وہ ہم نشیں وہ ہمزباں، دغا جو مجھ کو دے گیا 
عدو نہ تھا، حبیب تھا، جو ہو گیا سو ہو گیا 

خود سری کا بھرم نہ کھل جائے

خود سری کا بھرم نہ کھُل جائے
آدمی کا بھرم نہ کھل جائے
تیرگی کا طلسم ٹوٹ گیا 
روشنی کا بھرم نہ کھل جائے
موت کا راز فاش تو کر دوں 
زندگی کا بھرم نہ کھل جائے

کیا کیا پیام غم کدہ دل سے آئے ہیں

کیا کیا پیام غم کدۂ دل سے آئے ہیں
ہم نامراد حسن کی محفل سے آئے ہیں
زنجیر کھل گئی، درِ زنداں بھی کھل گئے
پیغام کیا بہار کی منزل سے آئے ہیں
ہے لذتِ فراق حیاتِ دلِ حزیں
فردا کی فکر، حال کا غم، اضطرابِ شوق

کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی

کم فرصتئ خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ، وہ شب یاد رہے گی
ہر چند تِرا عہدِ وفا بھول گئے ہم
وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شوخئ یک جنبشِ لب یاد رہے گی

کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے

کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
مِری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محوِ فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے

یہ بھی کیا شام ملاقات آئی

یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی
لب پہ مشکل سے تیری بات آئی
صبح سے چپ ہیں تِرے ہجر نصیب
ہائے کیا ہو گا، اگر رات آئی
بستیاں چھوڑ کے برسے بادل
کس قیامت کی یہ برسات آئی

اس شوخ نے نگاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

اس شوخ نے نگاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے 
ہم نے بھی آہ آہ نہ کی، ہم بھی چپ رہے
آیا نہ ان کو عہدِ ملاقات کا لحاظ 
ہم نے بھی کوئی چاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے
دیکھا کئے ہماری طرف بزم غیر میں 
تجدیدِ رسم و راہ نہ کی، ہم بھی چپ رہے

محبت کی دنیا میں سب کچھ حسیں ہے

محبت کی دنیا میں سب کچھ حسِیں ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
کہیں زبردستوں کو راحت نہیں ہے
نہ زیرِ فلک ہے، نہ زیرِ زمیں ہے
وہ بے خود ہوں اتنا نہیں جانتا میں
تِرا سنگِ در ہے، کہ میری جبیں ہے

زندگی کا لطف بھی آ جائے گا

زندگی کا لطف بھی آ جائے گا
زندگانی ہے تو دیکھا جائے گا
جس طرح لکڑی کو کھا جاتا ہے گھُن
رفتہ رفتہ غم مجھے کھا جائے گا
حشر کے دن میری چپ کا ماجرا
کچھ نہ کچھ تم سے بھی پوچھا جائے گا

Thursday, 28 April 2016

پھر گل و گلزار کی باتیں کریں

“آؤ حسن یار کی باتیں کریں”
پھر گل و گلزار کی باتیں کریں
پیکرِ دلدار کی باتیں کریں
یعنی نور و نار کی باتیں کریں
دل کے کانٹوں کو بنائیں گلستاں
اس لب و رخسار کی باتیں کریں

مریں بھی تو کیا جب جیا جائے نا

مریں بھی تو کیا جب جِیا جائے نا
کہ اب زہر بھی تو پِیا جائے نا
وہ حسنِ مجسم ہے اے دوستو
اسے نام قاتل دِیا جائے نا
بیابان و تیشہ سے مجھ کو غرض
محبت کو رسوا کِیا جائے نا

آنکھوں پر الزام بہت ہیں

آنکھوں پر الزام بہت ہیں
طور بہت ہیں بام بہت ہیں
کس کس در سے بچ نکلو گے
کوچہ کوچہ دام بہت ہیں
اپنی خوشی سے سب کی خوشی تک
عشق میں تیرے کام بہت ہیں

سامنے آنکھوں کے گھر کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے

سامنے آنکھوں کے گھر کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
کیا کرے وہ جس کا دل پتھر بنے اور ٹوٹ جائے
ہائے رے ان کے فریبِ وعدۂ فردا کا جال
دیکھتے ہی دیکھتے اک در بنے اور ٹوٹ جائے
حادثوں کی ٹھوکروں سے چُور ہونا ہے تو پھر
کیوں نہ خاموشی سے دل ساغر بنے اور ٹوٹ جائے

دنیا بنی تو حمد و ثنا بن گئی غزل

دنیا بنی تو حمد و ثنا بن گئی غزل
اترا جو نور، نورِ خدا بن گئی غزل
گونجا جو نادِ برَہم، بنی رقصِ مہر و ماہ
ذرے جو تھرتھرائے، صدا بن گی غزل
چمکی کہیں جو برق تو احساس بن گئی
چھائی کہیں گھٹا، تو ادا بن گئی غزل 

وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا

وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا
بھوک اتنی تھی کہ مجھ کو زہر بھی اچھا لگا
چھوڑ کر جس کو بہت ہی خوش ہوا تھا میں کبھی
دیکھ کر دنیا مجھے وہ شہر بھی اچھا لگا
اجنبی لگتی تھی اپنے وقت کی ہر ایک چیز
وہ مِلا تو مجھ کو اپنا دہر بھی اچھا لگا

جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے

جلا وطن ہوں مِرا گھر پکارتا ہے مجھے
اداس بام کھلا درد پکارتا ہے مجھے
کسی کی چاپ مسلسل سنائی دیتی ہے
سفر میں کوئی برابر پکارتا ہے مجھے
صدف ہوں لہریں درِ جسم کھٹکٹاتی ہیں
کنارِ آب وہ گوہر پکارتا ہے مجھے

خیال مرگ کے آتے ہی ڈر گیا میں تو

خیالِ مرگ کے آتے ہی ڈر گیا میں تو
خود اپنی موت سے پہلے ہی مر گیا میں تو
سجھائی کچھ نہیں دیتا اس اندھیرے میں
میں قبر میں تھا کہ کمرے میں ڈر گیا میں تو
تیرے وصال کی خواہش مجھے سنوارتی ہے
تیرے فراق سے جیسے نکھر گیا میں تو

Wednesday, 27 April 2016

کرتا

کُرتا

میرے مصور
تِرے تصورمیں جگمگاتا سفید کرتا
سفید کرتے میں
تُو نے جتنی بھی کہکشاؤں کے رنگ دیکھے
وہ کتنے تیکھے تھے، کتنے پھیکے
کلف لگے اس سفید کرتے پہ تُو نے کھینچیں

اسے کیا خبر ہے

اسے کیا خبر ہے

کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے
وہ اپنے ہی خوابوں، خیالوں میں کھوئی
کبھی جاگتی اور کبھی سوئی سوئی
کوئی اور اِسمِ وفا پڑھ رہی ہے
محبت کے دل میں اترتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے

ہوا چل رہی ہے

ہوا چل رہی ہے

ہوا ساحلوں کی طرف چل رہی ہے
سمندر کی لہروں پر اڑتے پرندے
کہاں جا رہے ہیں
ہم اپنی اڑانیں اگر یاد رکھتے
تو اڑتے پرندوں سے یہ پوچھ لیتے
کہاں جا رہے ہو

ہوئے ہجرت پہ مائل پھر مکیں آہستہ آہستہ

ہوئے ہجرت پہ مائل پھر مکیں آہستہ آہستہ
بہت سی خواہشیں دل سے گئیں آہستہ آہستہ
ہوا اس سانحے میں غیر جانبدار نکلی، سو
دھوئیں کی ایک دو موجیں اٹھیں آہستہ آہستہ
مجھے ماہِ منور نے بہت الجھائے رکھا، اور
سمندر کھا گئے میری زمیں،۔۔ آہستہ آہستہ

قفس ہے جو بہ شکل سائباں رکھا ہوا ہے

قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے
ہمارے سر پہ یہ جو آسماں رکھا ہوا ہے
تِری آنکھوں میں کیوں جھلکا نہیں رنگِ تمنا
تِرے سینے میں دل کیا رائیگاں رکھا ہوا ہے 
تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی
زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہوا ہے

پوچھ مت نارسا دعاؤں کی

پوچھ مت نارسا دعاؤں کی
دیکھ تنویر کہکشاؤں کی
بے زمیں راستے ہوئے آباد
اڑ گئی نیند دیوتاؤں کی
آسماں ہے کہ چادرِ تخیّل
کہکشاں ہے کہ دھول پاؤں کی

دیکھے نہ فقیری کو کوئی شک سے ہماری

دیکھے نہ فقیری کو کوئی شک سے ہماری
دیوار میں در بنتا ہے دستک سے ہماری
بازار میں بیٹھے تھے لیے ٹوٹا ہوا دل
سو بحث تو بنتی نہ تھی گاہک سے ہماری
ہم خاک نشینوں کی سمجھ میں نہیں آتا
اس شہر کو کیا ملتا ہے چشمک سے ہماری

وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں ترے شہر میں

 وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں تِرے شہر میں

تُو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں سبھی رونقیں ترے شہر میں

مِری بے بسی کی کتاب کا کوئی ورق تُو نے پڑھا نہیں

تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں مِری خواہشیں ترے شہر میں

سبھی ہاتھ مجھ پہ اٹھے یہاں سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے

مِری سادگی کے لباس پر پڑیں سلوٹیں ترے شہر میں

مٹے ماضی کے کتبوں کو گرا کر بھول جاتا ہوں

مِٹے ماضی کے کتبوں کو گِرا کر بھُول جاتا ہوں
میں یوں خوابوں کی اب قبریں بنا کر بھُول جاتا ہوں
بڑے ہی شوق سے لکھتا ہوں میں سب نام اب دل پر
پھر اس کے بعد خود ان کو مِٹا کر بھُول جاتا ہوں
جوانی کے زمانے کو کھڑے بارش کے پانی میں
میں کاغذ کی کوئی کشتی بہا کر بھُول جاتا ہوں

جس نے بتوں سے حکم بغاوت دیا نہیں

جس نے بتوں سے حکمِ بغاوت دیا نہیں
ہو گا خدا کسی کا،۔ وہ میرا خدا نہیں
ہم ہی وفا کے عہد پہ قائم نہ رہ سکے
اپنے سوا ہمیں تو کسی کا گِلہ نہیں
صدیاں ہوئیں کہ آئی تھی گلشن میں فصلِ گل
لیکن دلوں سے اس کا تصور گیا نہیں

اب نہ فریاد نہ ماتم نہ فغاں اے ساقی

اب نہ فریاد نہ ماتم نہ فغاں اے ساقی
نطق و گویائ کی طاقت ہی کہاں اے ساقی
ایک ملاح سے محروم سفینے کی طرح 
زیست ہے بحرِ حوادث میں رواں اے ساقی
جن کا ہر سانس تھا اک موجہٴ صہبائے نشاط
ان کے ہر سانس سے اٹھتا ہے دھواں اے ساقی

رخ پہ یہ چاندنی جو پھیلی ہے

رخ پہ یہ چاندنی جو پھیلی ہے
آج کیا ہے کہ میلی میلی ہے
چشمِ مے گوں کی ایک بوند شراب
جسم میں زہر بن کے پھیلی ہے
اب تو اس کو ذرا بدل دیجئے
روشنی کی نقاب میلی ہے

مرے دل تلک نہ پہنچے تری چشم سرمہ سا سے

مِرے دل تلک نہ پہنچے تِری چشمِ سُرمہ سا  سے
وہ کنایہ ہائے نازک جو لچک گئے حیا سے
میں یہ غور کر رہا ہوں تجھے مانگ کر خدا سے
مِرا مدعا پشیماں نہ ہو تیرے مدعا سے
میں خدا کو پُوجتا ہوں، میں خدا سے رُوٹھتا ہوں
یہ وہ نازِ بندگی ہے،۔ جسے پوچھئے خدا سے

گا رہا تھا کوئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آ گئی درختوں میں
چاند نکلا افق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مِینہْ برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھُول ہے
درد کی خامشی کا سُخن پھُول ہے
اُڑتا پھرتا ہے پھُلواریوں سے جدا
برگِ آوارہ جیسے پون پھُول ہے
اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے
دشتِ غربت میں یادِ وطن پھُول ہے

تو ہے یا تیرا سایہ ہے

تُو ہے یا تیرا سایا ہے
بھیس خدائی نے بدلا ہے
دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قُفل پڑا ہے
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے

پھر نئی فصل کے عنواں چمکے

پھر نئی فصل کے عنواں چمکے
ابر گرجا گلِ باراں چمکے 
آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں 
سانس کھینچوں تو رگِ جاں چمکے 
کیا بگڑ جائے گا اے صبحِ جمال
آج اگر شامِ غریباں چمکے 

Tuesday, 26 April 2016

ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے

ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے 
مجھ میں کوئی اڑنے کو پر تولتا ہے
کوئ تو ہے جو تلخ سمندر کی تہ میں 
چپکے چپکے میٹھا دریا گھولتا ہے
کنجِ چشم سے کنجِ لب تک آتے ہوئے 
ڈھلتا آنسو لمحہ لمحہ بولتا ہے

غم دل کے بسیروں میں آباد بہت سے ہیں

غم دل کے بسیروں میں آباد بہت سے  ہیں
بھُولے تو نہیں کچھ بھی، پر یاد بہت سے ہیں
ہر شخص نے اپنے سے اوپر ہی نظر رکھی
اس واسطے دنیا میں ناشاد بہت سے ہیں
اڑتے ہوۓ طائر کے پر تم نے گنے ہوں گے
اندیشہ مِرے دل کو، صیاد! بہت سے ہیں

جس روپ میں تو چاہے میں ڈھلتا رہوں ہر دم

جس روپ میں تُو چاہے میں ڈھلتا رہوں ہر دَم 
موسم تو نہیں ہوں کہ بدلتا رہوں ہر دم 
جس چیز کو جی چاہے اٹھا لوں نہ اسے کیوں 
کیوں آتشِ حسرت میں ہی جلتا رہوں ہر دم
تجھ کو بھی خیال آئے کبھی اپنی وفا کا 
کیوں راہِ وفا پر یونہی چلتا رہوں ہر دم 

میری تعریف بھی جھوٹی ہی سہی لکھو نا

میری تعریف بھی جھوٹی ہی سہی لکھو نا 
“اک غزل تم بھی میرے نام کبھی لکھو نا”
مے کشی ایک بہانہ ہے فقط ملنے کا
شوقِ دیدار پسِ تشنہ لبی لکھو نا
کھُل کے لکھو نا مِری جور و جفا کے قصے
اور کبھی اپنی بھی آشفتہ سری لکھو نا

میاں ہم شاعری سے پیار کے پرچم بناتے ہیں

میاں! ہم شاعری سے پیار کے پرچم بناتے ہیں
جنہیں انساں سے نفرت ہے وہ انساں بم بناتے ہیں
تشدد ظلم کی سب داستانیں جوڑ رکھتے ہیں
ہمارے عہد کے بچے نئے البم بناتے ہیں
کبھی مصنوعی بارش سے کبھی برسات رکوا کر
انہیں یہ خوش گمانی ہے کہ وہ موسم بناتے ہیں

Sunday, 24 April 2016

اتنی سی بات کا اتنا بڑا افسانہ بنا

اتنی سی بات کا، اتنا بڑا افسانہ بنا
کوئی دیوانہ ہوا ہے، کوئی دیوانہ بنا
وہ زیارت گہِ مجنوں بہت آباد ہوئی
اپنی وحشت کیلئے اب کوئی ویرانہ بنا
یا مِرے کندھوں پہ رکھ پھر وہی عیسیٰ کی صلیب
یا تو پھر میری طبیعت کو غلامانہ بنا

ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہو گا چاند

گیت/غزل

ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہو گا چاند 
اپنی رات کی چھت پہ کتنا تنہا ہو گا چاند 
ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں۔۔۔

جن آنکھوں میں کاجل بن کر تَیری کالی رات
ان آنکھوں میں آنسو کا اک قطرہ ہو گا چاند
ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں۔۔۔

دل کے اجلے کاغذ پر ہم کیسا گیت لکھیں

گیت/غزل

دل کے اجلے کاغذ پر ہم کیسا گِیت لِکھیں
بولو تم کو غیر لکھیں یا اپنا مِیت لکھیں
بولو تم کو غیر لکھیں یا۔۔۔

نیلے امبر کی انگنائی میں تاروں کے پھول
میرے پیاسے ہونٹوں پر ہیں انگاروں کے پھول
ان پھولوں کو آخر اپنی ہار یا جِیت لکھیں
بولو تم کو غیر لکھیں یا۔۔۔

پھول کو خار سے نوکیلا بنا دیتے ہیں

 پھول کو خار سے نوکیلا بنا دیتے ہیں 

وسوسے رشتوں کی بنیاد ہلا دیتے ہیں 

غمزدہ دیکھ کے مایوس نہ ہو بذلہ سنج

دل دکھا ہو تو لطیفے بھی رُلا دیتے ہیں 

سرخ ذروں میں بدل دیتی ہے اشکوں کی تڑپ 

بعض غم جینے کے انداز سِکھا دیتے ہیں 

بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر

بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایا دیکھ کر 
لوگ بھی کتراۓ کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر
ریت کی دیوار میں شامل ہے خونِ زیست بھی 
اے ہواؤ! سوچ کر،۔ اے موجِ دریا! دیکھ کر
اپنے ہاتھوں اپنی آنکھیں بند کرنی پڑ گئیں 
نگہتِ گُل کے جلَو میں گَردِ صحرا دیکھ کر

گماں یک طرفہ ہے سفر ہے یک طرفہ

گماں یک طرفہ ہے سفر ہے یک طرفہ
ہماری عمر میں سارا سفر ہے یک طرفہ
جو اس گلی میں گیا،۔۔ لوٹ کر نہیں آیا
کہ اس گلی کی ہر اک رہگزر ہے یک طرفہ
یہ زندگی ہے جو سمجھوتہ کر سکو اس سے
تمہارے حق میں ہے پھر بھی، اگر ہے یک طرفہ

یہ میں کس شہر کے نواح میں ہوں

یہ میں کس شہر کے نواح میں ہوں
روز و شب جیسے قتل گاہ میں ہوں
وقت نے جیسے نظریں پھیری ہیں
اور میں کوششِ نِباہ میں ہوں
راستے بند ہوتے جاتے ہیں
اور میں منزلوں کی چاہ میں ہوں

برسات کا موسم ہے گھٹا جھوم رہی ہے

برسات کا موسم ہے، گھٹا جھُوم رہی ہے
مے خانے پہ رِندوں کی دعا جھوم رہی ہے
بکھرا دئیے کس نے یہ مہکتے ہوئے گیسو
مستوں کی طرح بادِ صبا جھوم رہی ہے
اک شاعرِ پیمانہ بکف کیوں نہ ہو بے خود
 ان کی نگہِ ہوش رہا جھوم رہی ہے

صد چاک ہوا گو جامۂ تن مجبوری تهی سینا ہی پڑا

صد چاک ہوا گو جامۂ تن مجبوری تهی، سینا ہی پڑا 
مرنے کا وقت مقرر تها، مرنے کے لیے، جینا ہی پڑا
مۓ اس کی نشیلی آنکھوں کی تلخاب سہی، زہراب سہی
لیکن فطرت کچھ چاہتی تھی، دل پیاسا تھا، پینا ہی پڑا
کہتی تهی جنوں جس کو دنیا، بگڑی ہوئی صورت عقل کی تهی
پهاڑا تها گریباں تیرے لیے، جب تُو نہ ملا، سِینا پڑا

آستیں میری ہے اور دیدۂ تر ہے اے دوست

آستیں میری ہے اور دیدۂ تر ہے اے دوست
اب مِرے اشک کا قطرہ بھی گہر ہے اے دوست
یہ نہ دیکھا کہ تبسم کی تہوں میں کیا ہے
کس قدر کور محبت کی نظر ہے اے دوست
دل تھا محتاط تو در بھی نظر آئے دیوار
دل ہے بیتاب تو دیوار بھی در ہے اے دوست

تو نے سینے کو جب تک خلش دی نہ تھی تو نے جذبوں کو جب تک ابھارا نہ تھا

تُو نے سینے کو جب تک خلش دی نہ تھی، تُو نے جذبوں کو جب تک ابھارا نہ تھا
میں وہ دریا تھا جس میں کہ لہریں نہ تھیں، میں وہ قلزم تھا جس میں کہ دھارا نہ تھا
تیرے آگے نہ یارانِ خود سر جھکے، تیری چوکھٹ سے بھاگے تو در در جھکے
اس جگہ دل جھکے، اس جگہ سر جھکے، بندگی کے سوا کوئی چارا نہ تھا
اشک موتی نہ تھے، بہہ گئے، بہہ گئے، ہنستے ہنستے یہ تم آج کیا کہہ گئے
یاد کر کے وہ دن ہم بھی چپ رہ گئے، جب ان آنکھوں میں آنسو گوارا نہ تھا

یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہوا​

یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہُوا​
مجھے خراب کِیا، آپ بھی خراب ہوا​
اجل میں، زِیست میں، تُربت میں، حشرمیں ظالم​
تِرے ستم کے لیے میں ہی انتخاب ہوا​
نگاہِ مست کو ساقی کی کون دے الزام​
مِرا نصیب، کہ رسوا مِرا شباب ہوا​

مے پلا کر آپ کا کیا جائے گا

مے پِلا کر آپ کا کیا جائے گا؟
جائے گا ایمان، جس کا جائے گا
دیکھ کرمجھ کو وہ شرما جائے گا 
یہ تماشہ کِس سے دیکھا جائے گا
جاؤں بت خانے سے کیوں کعبے کو میں
ہاتھ سے، یہ بھی ٹھکانہ جائے گا

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں رکھتے
سر رکھتے ہیں، سر میں نہیں سودائے محبت
دل رکھتے ہیں، دل میں کوئی ارماں نہیں رکھتے
نفرت ہے کچھ ایسی انہیں آشفتہ سروں سے
اپنی بھی وہ زلفوں کو پریشاں نہیں رکھتے

نفس کے لوچ میں رم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

نفس کے لوچ میں رَم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
حیات، ساغرِ سَم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
تِری نگاہ مِرے غم کی پاسدار سہی
مِری نگاہ میں غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
مری ندیم! محبت کی رفعتوں سے نہ گِر
بلند بامِ حرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو سنسار کو تم کیا پاؤ گے

سنسار سے بھاگے پھِرتے ہو، سنسار کو تم کیا پاؤ گے
اِس لوک کو بھی اپنا نہ سکے، اُس لوک میں بھی پچھتاؤ گے
یہ پاپ ہے کیا یہ پُنیہ ہے کیا، رِیتوں پر دھرم کی مہریں ہیں
ہر یُگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے
یہ بھَوگ بھی ایک تَپسیا ہے، تم تیاگ کے مارو کیا جانو
اپمان رچیتا کا ہو گا، رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے

کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے

کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے
وہ نہ آئیں تو ستاتی ہے خلش سی دل کو
وہ جو آئیں تو خلش اور جواں ہوتی ہے
رہروِ راہِ محبت کی بلا یہ جانے
دن گزرتا ہے کہاں، رات کہاں ہوتی ہے

Saturday, 23 April 2016

اس مرض کو شفا سے کیا مطلب

"درد دل کو دوا سے کیا مطلب"
اس مرض کو شفا سے کیا مطلب
خونِ ارماں سے تو ہوا دل شاد
اب مجھے خوں بہا سے کیا مطلب
عینِ طوفاں میں خود نگر بن جا
ناخدا سے، خدا سے کیا مطلب 

راز سربستہ محبت کے زباں تک پہنچے

راز سربستہ محبت کے، زباں تک پہنچے 
بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے 
کیا تصرف ہے تِرے حسن کا، اللہ، الله 
جلوے آنکھوں سے، اتر کر دل و جاں تک پہنچے
تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا 
سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پنچے 

غم سے گر آزاد کرو گے

غم سے گر آزاد کرو گے
اور مجھے ناشاد کرو گے
تم سے، اور امید وفا کی
تم، اورمجھ کو یاد کرو گے
وِیراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے

پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے

پھر سے آرائشِ ہستی کے جو ساماں ہوں گے 
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے 
عشق کی منزلِ اوّل پہ ٹھہرنے والو 
اس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تُو جہاں جائے گی غارت گرِ ہستی بن کر 
ہم بھی اب ساتھ تِرے گردشِ دوراں ہوں گے 

تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا​

تغافل کا کروں ان سے گِلہ کیا​
وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا
محبت میں تمیزِ دشمن و دوست
یہاں نا آشنا کیا، آشنا کیا​
زمانے بھر سے میں‌ کھو گیا ہوں​
تمہیں پا کر مجھے آخر مِلا کیا ​

قریہ معرفت جہاں تک ہے

قریۂ معرفت جہاں تک ہے
منزلِ عشق بھی وہاں تک ہے
دل کی دیوانگی یہ پوچھتی ہے
ہوش کی سلطنت کہاں تک ہے
صورت کا سلسلہ سماعت تک
بات کا ذائقہ زباں تک ہے

اک سمندر ہے اور بھنور کتنے

اک سمندر ہے اور بھنور کتنے 
جانے درپیش ہیں سفر کتنے
وہ زمانے تیری رفاقت کے
آج لگتے ہیں مختصر کتنے
ہم کو اس راہ گزارِ ہستی میں 
سکھ کے سائے ملے مگر کتنے

دشت فرقت میں دے صدا مجھ کو

دشتِ فرقت میں دے صدا مجھ کو
اپنی صورت ذرا دکھا مجھ کو
میں ہوں تنہا وفا کی راہوں پر
اپنا کوئی پتا بتا مجھ کو
مجھ کو بھی دعوائے محبت ہے
آتشِ عشق میں جلا مجھ کو

اسیری میں یہی تھا اک سہارا

اسیری میں یہی تھا اک سہارا
قفس کو آشیاں کہہ کر پکارا
نگاہِ شوق چُن لے ایک ان میں
یہ ہیں طوفاں کی موجیں، یہ کنارا
تجھے دیکھے کہاں تک جذبۂ شوق
کہ دامانِ نظر ہے پارا پارا

پھر اسی مہ لقا کی یاد آئی

پھر اسی مہ لقا کی یاد آئی
چمک اٹھی ہے شب کی تنہائی
وہ مکُیں دل میں تھے مگر ان کو
زندگی چار سُو پکار آئی
اے غم دوست! ایک تیرے سوا
کس کو سمجھوں رفیقِ تنہائی

وقت پڑا تو راز یہ پایا

وقت پڑا تو راز یہ پایا 
کون ہے اپنا، کون پرایا
دل بھی نہ سمجھا عقل کی باتیں
عقل نے تو دل کو سمجھایا
درد اور دل میں فرق نہیں اب
درد نے دل کو یوں اپنایا

Friday, 22 April 2016

ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے

ابتدائے عشق ہے، لطفِ شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے، اضطراب آنے کو ہے
قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبحِ محشر ہمرکاب آنے کو ہے
مجھ تک اس محفل میں پھر جامِ شراب
عمرِ رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا

جمال خود رخِ بے پردہ کا نقاب ہوا
نئی ادا سے نئی وضع کا حجاب ہوا
ملا ازل میں مجھے میری زندگی کے عوض
وہ ایک لمحۂ ہستی کہ صرف خواب ہوا
وہ جلوہ مفت نظر تھا، نظر کو کیا کہئے
کہ پھر بھی ذوقِ تماشا نہ کامیاب ہوا

خیال لب میں ابر دیدہ ہائے تر برستے ہیں

خیالِ لب میں ابر دیدہ ہائے تر برستے ہیں
یہ بادل جب برستے ہیں لبِ کوثر برستے ہیں
خدا کے ہاتھ ہم چشموں میں ہے اب آبرو اپنی
بھرے بیٹھے ہیں دیکھیں آج وہ کس پر برستے ہیں
ڈبو دیں گی یہ آنکھیں بادلوں کو ایک چھینٹے میں
بھلا برسیں تو میرے سامنے کیونکر برستے ہیں

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
خضرؑ کیا جانیں مرگ کی لذت
اس مزے سے وہ آشنا ہی نہیں
شعر وصفِ دہن میں سن کے کہا
ایسا مضموں کبھی سنا ہی نہیں

چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور

چمکی ہے جب سے برقِ سحر گلستاں کی اور 
جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں، کہ رفتگاں
منہ کر کے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگِ سخن تو دیکھ، کہ حیرت سے باغ میں
رہ جاتے ہیں گے دیکھ کے گل اس دہاں کی اور

چھن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی

چھِن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی
یار کے تیر، جان لے جا بھی
کیوں تِری موت آئی ہے گی عزیز
سامنے سے مِرے، ارے جا بھی
حال کہہ چُپ رہا، تو میں بولا
کس کا قصہ تھا، ہاں کہے جا بھی

چاندی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے

چاندی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے 
چند شکستہ زِینوں سے اور کچھ گِرتی دیواروں سے
آؤ کھُلی مُحراب کے نیچے بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں
دل کو وحشت سی ہوتی ہے گھُٹے گھُٹے بازاروں سے
میں نے اپنا کمرہ نِچلی منزل پر تبدیل کیا 
ہوٹل کی کھڑکی اونچی تھی، مسجد کے میناروں سے

Thursday, 21 April 2016

ہم بھی شکستہ دل ہیں پریشان تم بھی ہو

ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ مِری جان تم بھی ہو
ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو
درپیش ہے ہمیں بھی کڑی دھوپ کا سفر
سائے کی آرزو میں پریشان تم بھی ہو

زندگی تو نے جو بازار سجا رکھا ہے

زندگی تُو نے جو بازار سجا رکھا ہے 
ہر خریدار نے ہنگام بپا رکھا ہے 
اک عقیدت کی نظر گر نہ ملے ہے پتھر 
تُو نے مندر میں جو بھگوان بٹھا رکھا ہے
چند سانسوں کی کہانی ہے ہمارا یہ وجود 
اک دِیا ہم نے ہواؤں میں جلا رکھا ہے 

اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے

اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے 
شام ڈھل جائے تو رہگیر بھی گھر کو ترسے 
خالی جھولی لیے پھِرتا ہے جو ایوانوں میں 
میرا شفاف ہنر، عرضِ ہنر کو ترسے
جس جگہ ہم نے جلائے تھے وفاؤں کے دِیے 
پھر اسی گاہ پہ دلدار نظر کو ترسے 

اپنی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دکھ

اپنی تردید کا صدمہ ہے، نہ اثبات کا دُکھ 
جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کس بات کا دکھ   
اب کوئی اور تمنا ہے عذابِ دل و جاں 
اب کسی حرف میں تُو ہے نہ تِری ذات کا دکھ
 میز پر چائے کے دو بھاپ اڑاتے ہوئے کپ 
اور بس سامنے رکھا ہے ملاقات کا دکھ

میں سنبھلتا ہوں مرا یار مجھے توڑتا ہے

میں سنبھلتا ہوں، مِرا یار مجھے توڑتا ہے 
ہاں، وہی لہجۂ بے زار مجھے توڑتا ہے   
شام ڈھلتے ہی سجاتا ہوں نگر خوابوں کا 
ہر نئی صبح کا اخبار مجھے توڑتا ہے
یہ زمانہ تو مجھے توڑ نہیں سکتا، مگر 
دل کہ اس کا ہے طرفدار مجھے توڑتا ہے

چاند اگا ہے پروا سنکی چلنا ہے تو چل

چاند اگا ہے پروا سنکی چلنا ہے تو چل 
مہکانے پھلواری من کی چلنا ہے تو چل   
دنیا کے بازار سے نکلیں پریم نگر کی اور 
بازی ہاریں تن من دھن کی چلنا ہے تو چل
یادوں نے الٹی کھینچی ہے آج سَمے کی ڈور 
وہ پگڈنڈی ہے بچپن کی، چلنا ہے تو چل

خفا کیوں ہو اگر تلوار تک ہم سے نہیں اٹھتی

خفا کیوں ہو اگر تلوار تک ہم سے نہیں اُٹھتی 
عزیزو سرپہ اب دستار تک ہم سے نہیں اٹھتی   
کسی کو نذر کر دینی تھی جاں کی اشرفی اب تک 
مگر یہ اشرفی دربار تک ہم سے نہیں اٹھتی
ہماری جان پھر بخشی گئی اے وائے محرومی 
کہ گردن نیزۂ دلدار تک ہم سے نہیں اٹھتی

عشق و وفا کی راہ گزر میں زیرِ قدم جب کانٹے آئے

عشق و وفا کی راہگزر میں زیرِ قدم جب کانٹے آئے
کتنے ہی اربابِ عزیمت ساتھ مِرا دے کر پچھتائے
راہِ وفا کا رہرو ہوں میں، کانٹوں پر چلنا ہے مجھ کو
کرب و بلا سے ڈرنے والا ہرگز میرے ساتھ نہ آئے
خوب ہے اے اربابِ محبت! ذکرِ بیانِ عظمتِ رفتہ
لیکن غازی وہ ٹھہرے گا جو ماضی کو حال بنائے

Wednesday, 20 April 2016

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں

جنہیں سحر نِگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈتا ہوں میں
مجھے نمک کی کان میں مٹھاس کی تلاش ہے
برہنگی کے شہر میں لباس کی تلاش ہے

وہ برف باریاں ہوئیں کہ پیاس خود ہی بجھ گئی
میں ساغروں کو کیا کروں کہ پیاس کی تلاش ہے

درد بڑھتا گیا جتنے درماں کئے

درد بڑھتا گیا جتنے درماں کئے،۔ پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پئے
اور جب دامنِ ضبط چھٹنے لگا ہم نے خوابوں کے جھوٹے سہارے لئے
عشق بڑھتا رہا سُوئے دار و رسن،۔ زخم کھاتا ہوا، مسکراتا ہوا
راستہ روکتے روکتے تھک گئے زندگی کے بدلتے ہوئے زاویے
گم ہوئ جب اندھیروں میں راہِ وفا، ہم نے شمعِ جنوں سے اجالا کیا
جب نہ پائی کوئی شکلِ بخیہ گری ہم نے کانٹوں سے زخموں کے منہ سی لئے

نہیں کہ جادۂ عیش و نشاط پا نہ سکے

نہیں کہ جادۂ عیش و نشاط پا نہ سکے
مگر ہم اپنا ذوقِ نظرِ گرا نہ سکے
تجھے تو کیا تِری جلووں کی ضو بھی پا نہ سکے
جو زندگی کو تِری راہ میں لٹا نہ سکے
گلہ ہی کیا ہے اگر غیر کام آ نہ سکے
خود اپنے اشک بھی دل کی لگی بجھا نہ سکے

پرانے خواب کا تاوان

پرانے خواب کا تاوان 

میرے چاروں طرف کتنا
حسیں خوابوں سا منظر ہے
مگر یہ خوشنما منظر
میری آنکھوں کو رعنائی نہیں تکلیف دیتا ہے
کوئی خوشبو بھرا جھونکا

اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو

تعبیر

اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو
جو میری آنکھ کی پتلی میں کہیں زندہ تھا
سہمے بچے کی طرح
بند ہونٹوں میں دبی ایک مقدس سی دعا کی مانند
اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے، لیکن
پھول زخموں کے کھِلے ہیں اتنے

مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا

مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا
ساتھ میرے مجھے کیا خبر دوسرا کون تھا
تا بہ منزل یہ بکھری ہوئی گردِ پا کس کی ہے
اے برابر قدم دوستو! وہ جدا کون تھا
جانے کس خطرے نے بخش دی سب کو ہمسائیگی
ورنہ اک دوسرے سے یہاں آشنا کون تھا

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بیکرانی کا
ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گُم تھیں
بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا
میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جاؤں
یہ شام اور سمندر اداس پانی کا

کبھی رستہ نہیں ملتا کبھی محور نہیں ملتا

کبھی رستہ نہیں ملتا،۔ کبھی محور نہیں ملتا
زمیں پاؤں سے سرکی ہے، فلک سر پر نہیں ملتا
جو محروم بصیرت ہو، وہ محروم بصارت ہے
کبھی آنکھیں نہیں کھلتیں، کبھی منظر نہیں ملتا
تو ملبوسِ نظارہ ہے تو میں نظروں کا جوہر ہوں
تجھے آنکھوں کی محرومی، مجھے پیکر نہیں ملتا

کیا بات بتاؤں میں تمہیں خوش نظراں کی

مُسکا کے جدھر دیکھیں، نئے پھول کھِلا دیں
کیا بات بتاؤں میں تمہیں خوش نظراں کی
اٹکھیلیاں کرتی ہے تِری یاد بھی کیا کیا
دل تک چلی آئی ہے ٹہلتی ہوئی بانکی
اے عہدِ گزشتہ کو بلاتے ہوئے لوگو
قیمت نہیں معلوم تمہیں عمرِ رواں کی

ہنستے گاتے روتے پھول

ہنستے گاتے روتے پھُول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
وقت کی پھُلواری میں نہیں
دامن میں ہیں ایسے پھول

دیس سبز جھیلوں کا

دیس سبز جھِیلوں کا
یہ سفر ہے مِیلوں کا
راہ میں جزیروں کی
سلسلہ ہے ٹِیلوں کا
کشتیوں کی لاشوں پر
جمگھٹا ہے چِیلوں کا

دنیا مری نظر سے تجھے دیکھتی رہی

دنیا مِری نظر سے تجھے دیکھتی رہی 
پھر میرے دیکھنے میں بتا کیا کمی رہی 
کیا غم اگر قرار و سکوں کی کمی رہی 
خوش ہوں کہ کامیاب مِری زندگی رہی 
اک درد تھا جگر میں جو اٹھتا رہا مدام 
اک آگ تھی کہ دل میں برابر لگی رہی 

سمجھ میں چارہ گر کی آئے گا کیا

سمجھ میں چارہ گر کی آئے گا کیا
مِرا غم کیا، مِرے غم کی دوا کیا
فریبِ زیست کھائے جا رہے ہیں
حقیقت آشنا،۔۔۔ نا آشنا کیا
مجھے دھوکا دیا میری نظر نے
کروں تجھ سے شکایت کیا، گِلا کیا

دم آخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

دمِ آخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

جہاں سے اٹھ گئے اہلِ جہاں سے کچھ نہ کہا

چلی جو کشتئ عمرِ رواں تو چلنے دی

رکی تو کشتئ عمرِ رواں سے کچھ نہ کہا

خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی

بدل کے رہ گئے تیور، زباں سے کچھ نہ کہا

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے

چلتی پھرتی یہ زمانے کی ہوا ہوتی ہے

سیر دنیا کی، نہ کچھ یاد خدا ہوتی ہے

عمر انہی جھگڑوں میں تاراج فنا ہوتی ہے

روح جب قالبِ خاکی سے جدا ہوتی ہے

کس کو معلوم، کہاں جاتی ہے، کیا ہوتی ہے

آب حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا

آبِ حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
مانند خضرؑ جگ میں اکیلا جیا تو کیا
شیریں لباں سوں سنگدلوں کو اثر نہیں
فرہاد کام کوہ کنی کا کیا تو کیا
جلنا لگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ یوں شتاب عبث جی دیا تو کیا

یہاں طالعوں سے ملتا ہے پیارا

یہاں طالعوں سے ملتا ہے پیارا
عبث دیکھے ہے زاہد استخارا
میں پایا ہوں ولے تجھ چشم کا بھید
نہ مانگوں کا کبھی ان کا اشارا 
نہالِ دوستی کو کاٹ ڈالا
دِکھا کر شوخ نے اَبرو کا آرا

Tuesday, 19 April 2016

ایک ہی بار بار ہے اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے، اماں ہاں
ذرہ ذرہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے، اماں ہاں
ہو وہ یزداں کہ آدمؑ و ابلیس
جو بھی خود شکار ہے، اماں ہاں

جبر پر اختیار ہے اماں ہاں

جبر پر اختیار ہے، اماں ہاں
بیقراری قرار ہے، اماں ہاں
ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دلفگار ہے، اماں ہاں
میرے آغوش میں جو ہے اس کا
دم بہ دم انتظار ہے، اماں ہاں

یہاں تو کوئی منچلا ہی نہیں

یہاں تو کوئی من چلا ہی نہیں
کہ جیسے یہ شہرِ بلا ہی نہیں
تِرے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغ
کوئی اب تیرا مبتلا ہی نہیں
ہوئی اس گلی میں فضیحت بہت
مگر میں وہاں سے ٹلا ہی نہیں

ہے عجب حال یہ زمانے کا

ہے عجب حال یہ زمانے کا
یاد بھی طور ہے بھلانے کا
پسند آیا ہمیں بہت پیشہ
خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا
کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
عیش دفتر میں گنگنانے کا

آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں

آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
اُف، لے گئی ہے ہم کو محبت کہاں کہاں
بے تابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام
بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں
راہِ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی
پھِرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں

کمی نہ کی تِرے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراق دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مِرے فسانے میں
وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجھکے جو رنگ لانے میں

کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے

کوئی پیغامِ محبت لبِ اعجاز تو دے 
موت کی آنکھ بھی کھُل جائے گی آواز تو دے
چشمِ مخمور کے عنوانِ نظر کچھ تو کھُلیں
دلِ رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے​
اک ذرا ہو نشۂ حسن میں اندازِ خمار
اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے

ایک آنکھوں کا اثر تاثیر اک رفتار کی

ایک آنکھوں کا اثر،۔ تاثیر اک رفتار کی
موجِ مے کا لڑکھڑانا، بے خودی مے خوار کی
پارسا کی پارسائی،۔ مستیاں مے خوار کی
وہ فقط حسرت،۔ یہ شان و کیفیت دیدار کی
کُنجِ زِنداں میں تو مجھ کو وُسعتِ صحرا کی یاد
حسرتیں صحرا میں زِنداں کے در و دیوار کی

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پہ تان لیا

زخموں کا دوشالہ پہنا، دھوپ کو سر پہ تان لیا 
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے، کہاں کہاں نِروان لیا 
نقش دیے تِری آشاؤں کو رنگ دیے تِرے خوابوں کو 
لیکن دیکھ! ہماری حالت، وقت نے کیا تاوان لیا 
اشکوں میں ہم گوندھ چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو 
موم کے پھول بنانے بیٹھے، لیکن دھوپ نے آن لیا 

یہ چاہتیں یہ پزیرائیاں بھی جھوٹی ہیں

یہ چاہتیں یہ پزیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ لفظ لفظ محبت کی یورشیں بھی فریب
یہ زخم زخم مسیحائیاں بھی جھوٹی ہیں
مِرے جنوں کی حقیقت بھی سر بسر جھوٹی
تِرے جمال کی رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں

میرے بس میں نگار زندگی ہے

میرے بس میں نگارِ زندگی ہے
مجھے اب اعتبارِ زندگی ہے
درِ دل پر کسی نے دی ہے دستک
مجھے تو انتظارِ زندگی ہے
پِلا دی تھی نگاہوں سے کسی نے
ہمیں اب تک خمارِ زندگی ہے

ہم تو قاتل کی رضا پوچھ لیا کرتے ہیں

اس کو منظور ہے کیا، پوچھ لیا کرتے ہیں
ہم تو قاتل کی رضا، پوچھ لیا کرتے ہیں
چوٹ کھاتے ہیں مگر ساتھ ہی گھائل تیرے
لذتِ آہ و بکا، پوچھ لیا کرتے ہیں
ہم وہ مجرم ہیں کہ ہر جرمِ وفا سے پہلے
بے گناہی کی سزا، پوچھ لیا کرتے ہیں

کیا کہیے روئے حسن پہ عالم نقاب کا

کیا کہیے روئے حسن پہ عالم نقاب کا
منہ پر لیا ہے مہر نے دامن سحاب کا
تصویر میں نے مانگی تھی شوخی تو دیکھیے
ایک پھول اس نے بھیج دیا ہے گلاب کا 
اب کیا سنائیں ٹوٹے ہوئے دل کی داستاں
آہنگ بے مزہ ہے شکستہ رباب کا

کوئی ادا شناس محبت ہمیں بتائے

کوئی ادا شناسِ محبت ہمیں بتائے
جو ہم کو بھول جائے وہ کیوں ہم کو یاد آئے
کس کی مجال تھی کہ حجابِ نظر اٹھائے
وہ مسکرا کے آپ ہی دل کے قریب آئے
اک دل نشیں نگاہ میں اللہ یہ خلش
نشتر کی نوک جیسے کلیجے میں ٹوٹ جائے

نہیں تم مانتے میرا کہا جی

نہیں تم مانتے میرا کہا جی
کبھی تو ہم بھی سمجھیں گے بھلا جی
تمہارے خط کے آنے کی خبر سن
میاں صاحب! نِپٹ میرا کُڑھا جی
زکٰوۃِ حسن دے، میں بے نوا ہوں
یہی ہے تم سے اب میری صدا جی

غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں

غم میں روتا ہوں تِرے صبح کہیں شام کہیں
چاہنے والوں کو ہوتا بھی ہے آرام کہیں
وصل ہو وصلِ الٰہی کہ مجھے تاب نہیں
دور ہوں دور مِرے ہجر کے ایام کہیں
لگ رہی ہیں تِرے عاشق کی جو آنکھیں چھت سے
تجھ کو دیکھا تھا مگر ان کے لب بام کہیں

رخ تہ زلف سیاہ فام کہاں تک دیکھوں

رخ تہِ زلفِ سیاہ فام کہاں تک دیکھوں 
کفر کو رہزنِ اسلام کہاں تک دیکھوں
شورشِ گردشِ ایام کہاں تک دیکھوں 
یہ فسردہ سحر و شام کہاں تک دیکھوں
جذبِ دل رہتا ہے ناکام، کہاں تک دیکھوں
وہ نہ آئیں گے لبِ بام، کہاں تک دیکھوں

نامہ بر آتے رہے جاتے رہے

نامہ بر آتے رہے جاتے رہے
ہجر میں یوں دل کو بہلاتے رہے
یہ بھی کیا کم ہے کہ میرے حال پر
دیر تک وہ غور فرماتے رہے
شدتِ احساسِ تنہائی نہ پوچھ
ہم بھری محفل میں گھبراتے رہے

روٹی کپڑا اور مکان

روٹی کپڑا اور مکان

دل جل رہے ہیں دوستو غم کے الاؤ میں
بچے بھی مبتلا ہیں دماغی تناؤ میں
پانی کی طرح بہتی ہے دولت چناؤ میں
یکجہتی کا تو نام نہیں رکھ رکھاؤ میں
اک آدمی کے واسطے پتلون، شرٹ، کوٹ
اک آدمی  کے واسطے ممکن نہیں لنگوٹ

بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے

بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے
آئے ہوں جیسے ان کے لیے دن بہار کے
اے تیز رو زمانے! تجھے کچھ خبر بھی ہے
لمحے صدی بنے ہیں شبِ انتظار کے
باقی رہے نہ گلشن و گل اور نہ آشیاں
لیکن ہیں چار سُو وہی چرچے بہار کے

بادل ہیں کہیں اور نہ اشجار نمایاں

بادل ہیں کہیں، اور نہ اشجار نمایاں
منظر میں پرندوں کی ہے اک ڈار نمایاں
اس خوابِ تمنا سے گزر جانا ہی اچھا
پھِرتی ہے یہاں وحشتِ بیدار نمایاں
ہم اہلِ محبت ہیں، فقط پیار کریں گے
تیروں کی نمائش ہو، کہ تلوار نمایاں

دور ہی دور سے اک خواب دکھائی دے گا

دور ہی دور سے اک خواب دِکھائی دے گا
کوئی جاگا ہوا عمروں کا دُہائی دے گا
نسل در نسل یہی آس چلی آتی ہے
کوئ آئے گا ہمیں دُکھ سے رہائی دے گا
شام جب تھک کے دروبام پہ سو جائے گی
اک ستارا مِری پلکوں پہ دکھائی دے گا

پرزے پرزے تو کر دیا مجھ کو

پرزے پرزے تو کر دیا مجھ کو
مثلِ تصویر اب جلا مجھ کو
دیکھ آیا ہوں آئینے سارے
کوئی چہرہ بھی اب دِکھا مجھ کو
دیکھ مجھ میں شرار کتنے ہیں
آب و گِل میں ذرا مِلا مجھ کو

Monday, 18 April 2016

دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر

دل خوف میں ہے عالمِ فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
ہے باب شہر مردہ گزر گاہ باد شام
میں چپ ہوں اس جگہ کی گرانی کو دیکھ کر
ہِل سی رہی ہے حدِ سفر شوق سے
دھندلا رہے ہیں حرف معانی کو دیکھ کر

جو مجھے بھلا دیں گے میں انہیں بھلا دوں گا

جو مجھے بھُلا دیں گے میں انہیں بھُلا دوں گا
سب غرُور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا
دیکھتا ہوں سب شکلیں سن رہا ہوں سب باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چُکا دوں گا
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیاؤں کی چار سُو چلا دوں گا

اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے

اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے

دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے

دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے
میری جبِیں پہ اپنا مقدر سجائیے
میں چاندنی میں گوندھ کے لایا ہوں رات کو
اب آپ اس سے کوئی سویرا بنائیے 
آئے تھے جس کی دید کو جھونکے بہار کے
میرے بدن میں پھر وہی خوشبو رچائیے

ہزاروں میں بس اک تیری لگن محسوس کرتے ہیں

ہزاروں میں بس اک تیری لگن محسوس کرتے ہیں
ہم اپنے پیار میں اک بانکپن محسوس کرتے ہیں
جھُلستا ہے نظر کو جب ملائم سا کوئی شعلہ
ہم اپنے دل میں ٹھنڈی سی جلن محسوس کرتے ہیں
تِرا پیکر تو خیر اک مشعلِ تاباں تھا پہلے بھی
تِرے سائے کو بھی ہم ضو فگن محسوس کرتے ہیں

دل والوں کی بات چلی ہے افسانہ در افسانہ

دل والوں کی بات چلی ہے، افسانا در افسانا
میرے ساتھ کے جاگنے والو، تم نہ کہیں اب سو جانا
پیار تو کرتی ہے سب دنیا بات فقط ایثار کی ہے
محفل کو اس سے کیا مطلب شمع جلے یا پروانا 
میری خوشیاں بھی اندیکھی میرے غم بھی اَندیکھے
جنگل کے پھولوں کا یارو کیا کھِلنا، کیا مرجھانا

تیرے افسانے سناتے ہیں مجھے

تیرے افسانے سُناتے ہیں مجھے
لوگ اب بھُولتے جاتے ہیں مجھے
قُمقُمے بزمِ طرب کے جاگے
رنگ کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے 
میں کسی بات کا پردہ ہوں کہ لوگ
تیری محفل سے اُٹھاتے ہیں مجھے

روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے

روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے
روز کچھ بارِ سفر بڑھ جائے ہے
کوئی تا حد تصور بھی نہیں
کون یہ زنجیرِ در کھڑکائے ہے 
تیرے افسانے میں ہم شامل نہیں
بات بس اتنی سمجھ میں آئے ہے

ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے

ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے
دل میں جب کوئی بات ہوتی ہے
شمع بُجھتی ہے، زُلف کھُلتی ہے
تب کہیں رات، رات ہوتی ہے
حُسن سرشار، عشق وارفتہ
کس سے ایسے میں بات ہوتی ہے

کچھ ہجر کے موسم نے ستایا نہیں اتنا

کچھ ہجر کے موسم نے ستایا نہیں اِتنا
کچھ ہم نے تیرا سوگ منایا نہیں اِتنا
کچھ تیری جدائی کی اذیت بھی کڑی تھی
کچھ دل نے بھی غم تیرا منایا نہیں اِتنا 
کیوں سب کی طرح بھیگ گئی ہیں تیری پلکیں
ہم نے تجھے حال سنایا نہیں اتنا

یوں دل میں تری یاد اتر آتی ہے جیسے

یوں دل میں تِری یاد اتر آتی ہے جیسے
پردیس میں غمناک خبر آتی ہے جیسے
آتی ہے تِرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے
ویران درختوں پہ سحر آتی ہے جیسے 
لگتا ہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا
یہ آنکھ تِرے نام پہ بھر آتی ہے جیسے

کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا

کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا
میں جو کچھ ہوں، وہی کچھ ہوں، جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا 
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں اتا

آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا

آگے حریمِ غم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہُوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامنِ چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا
دل کا جو رنگ تھا وہ نظر سے چھپا نہ تھا 
رنگِ شفق کی دھوپ کھلی تھی قدم قدم
مقتل میں صبح و شام کا منظر جدا نہ تھا

غم عشرت سے ترساں عشرت غم لے کے آئے ہیں

غمِ عشرت سے ترساں، عشرتِ غم لے کے آئے ہیں
گدایانِ تہی کاسہ، دو عالم لے کے آئے ہیں
نگاہِ کم نگہ، تفسیرِ رنگ و بو و نغمہ تھی
بڑے تحفے کسی کی بزم سے ہم لے کے آئے ہیں
یہی دل ہے کنویں جھنکوا دیے جس نے زمانے کو
اسی ظالم کی تائیدِ مکرم لے کے آئے ہیں

صبر آیا نہ تاب آوے ہے

صبر آیا نہ تاب آوے ہے
نہ دعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے

تم جو اے جان ہمیں شکل دکھانے کے نہیں

تم جو اے جان! ہمیں شکل دکھانے کے نہیں
تو کوئ دن ہی میں جیتا ہمیں پانے کے نہیں
جن کے گھر دوستو! ہم آپ سے جانے کے نہیں
“کیا غضب ہے کہ وہ کہتے ہیں ”بلانے کے نہیں
اے صبا! تُو ہی مِرا حال کہہ اس غافل سے
ہمنشیں اس کے تو کچھ یاد دِلانے کے نہیں

کہتا ہے تو مجھے کہ نہ جا کوئے یار کو

کہتا ہے تُو مجھے کہ نہ جا کُوئے یار کو
ناصح! پہ کیا کروں میں دلِ بے قرار کو
ہے لطف سیرِ لالہ کا جب تُو بغل میں ہو
تُو ہی نہ ہو،۔۔ آگ لگے اس بہار کو
دامن تک اس کے کہوں کیا کہ ایک دن
ہمدم ہوئی رسائی نہ میرے غبار کو

مفت سودا ہے ارے یار کہاں جاتا ہے

مفت سودا ہے ارے یار کہاں جاتا ہے
آ مِرے دل کے خریدار کہاں جاتا ہے
کجکلہ تیغ بکف چین برابر و بے باک
یا الٰہی! یہ ستم گار کہاں جاتا ہے
لیے جاتی ہے اجل جانِ فغاںؔ کو اے یار
لیجیو تیرا گرفتار کہاں جاتا ہے

مبتلائے عشق کو اے ہمدماں شادی کہاں

مبتلائے عشق کو اے ہم دماں شادی کہاں
آ گئے اب تو گرفتاری میں، آزادی کہاں
کوہ میں مسکن کبھی ہے اور کبھی صحرا کے بیچ
خانۂ الفت ہو ویراں،۔۔ ہم کو آبادی کہاں 
ایک میں تو قتل سے خوش ہوں ولیکن مجھ سوا
پیش جاوے گی مِرے قاتل یہ جلادی کہاں

اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا

اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا
گریباں چاک کر روتے کہاں ہم
اگر یہ دامنِ صحرا نہ ہوتا 
سدا رہتی توقع بلبلوں کو
اگر یہ غنچۂ گُل وا نہ ہوتا

کھا پیچ و تاب مجھ کو ڈسیں اب وہ کالیاں

کھا پیچ و تاب مجھ کو ڈسیں اب وہ کالیاں
ظالم اسی لیے تیں نے زلفیں تھیں پالیاں
تنہا نہ در کو دیکھ کے گرتے ہیں اشکِ چشم
سوراخ دل میں کرتی ہیں کانوں کی بالیاں
دیکھا کہ یہ تو چھوڑنا ممکن نہیں مجھے
چلنے لگا وہ شوخ مِرا تب یہ چالیاں

شیخ تو تو مرید ہستی ہے

شیخ! تُو تو مریدِ ہستی ہے
مۓ غفلت کی تجھ کو مستی ہے
طوفِ دل چھوڑ جائے کعبہ کو
بس کہ فطرت میں تیری پستی ہے
کیوں چڑھے ہیں گدھے گدھے اوپر
تیری داڑھی کو خلق ہنستی ہے

یار کا مجھ کو اس سبب سے ڈر ہے

یار کا مجھ کو اس سبب سے ڈر ہے
شوخ ظالم ہے اور سِتم گر ہے​
دیکھ سرو چمن تِرے قد کُوں
خجل ہے، پاگل ہے، بے بر ہے
حق میں عاشق کے تجھ لباں کا بچن
قند ہے، نیشکر ہے، شکر ہے

خال اس کے نے دل لیا میرا

خال اس کے نے دل لِیا میرا
تِل میں ان نے لہو پِیا میرا
جان بے درد کو ملا کیوں تھا
آگے آیا مِرے کِیا میرا 
اسکے کوچہ میں مجھ کو پھِرتا دیکھ
رشک کھاتی ہے آسیا میرا

چھپا نہیں جابجا حاضر ہے پیارا

چھپا نہیں جابجا حاضر ہے پیارا
کہاں وہ چشم جو ماریں نظارا
جدا نہیں سب ستی تحقیق کر دیکھ
ملا ہے سب سے اور سب سے ہے نیارا
مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے منزل
بجے ہے کوچ کا ہر دم نقارا

اک اضطراب ہے الجھن ہے کیا کیا جائے

اک اضطراب ہے الجھن ہے کیا کیا جائے
دل و دماغ میں ان بن ہے کیا کیا جائے
درست ہی سہی، دشمن سے دوستی کا خیال
ہمارا دوست ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
ہر ایک پھول دہکتا ہوا ہے انگارہ
عجیب صورتِ گلشن ہے کیا کیا جائے

بہ عنوان خلوص دل کہیں ایسا نہ کر لینا

بہ عنوانِ خلوصِ دل کہیں ایسا نہ کر لینا
تماشابن کے اپنے آپ کو رسوا نہ کر لینا
تقاضا ابرباراں کا ہے پی لے جھوم کر واعظ
پھر اس کے بعد سو توبہ سر مے خانہ کر لینا
بہت نازک زمانہ ہے ضمیر اپنا سلامت رکھ
کہیں نا سمجھی میں ایمان کا سودا نہ کر لینا

گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں

گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں
اگر ملو تو سجن سو طرح کی گھاتیں ہیں
بُتاں سیں مجھ کوں تُو کرتا ہے منع اے زاہد
رہا ہوں سن کہ یہ بھی خدا کی باتیں ہیں
ازل سیں کیوں یہ ابد کی طرف کوں دوڑیں ہیں
وہ زلف و دل کے طلب کی مگر براتیں ہیں

شوق بڑھتا ہے مرے دل کا دل افگاروں کے بیچ

شوق بڑھتا ہے مِرے دل کا دل افگاروں کے بیچ
جوش کرتا ہے جنوں مجنوں کا گلزاروں کے بیچ
عاشقاں کے بیچ مت لے جا دلِ بے شوق کو
شیشۂ خالی کو کیا عزت ہے میخواروں کے بیچ
رو بہ رو اور آنکھ اوجھل ایک ساں ہو جس کا پیار
اس طرح کا کم نظر آتا ہے کوئی یاروں کے بیچ

دل نے پکڑی ہے یار کی صورت

دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت
گُل ہُوا ہے بہار کی صورت
کوئی گُل رُو نہیں تمہاری شکل
ہم نے دیکھیں ہزار کی صورت
تجھ گلی بیچ ہو گیا ہے دل
دیدۂ انتظار کی صورت

سنوارے ہے گیسو تو دیکھا کرے ہے

سنوارے ہے گیسو تو دیکھا کرے ہے

وہ اب دل کو آئینہ جانا کرے ہے

نہ باتیں کرے ہے نہ دیکھا کرے ہے

مگر میرے بار میں سوچا کرے ہے

محبت سے وہ دشمنی ہے کہ دنیا

ہوا بھی لگے ہے تو چرچا کرے ہے

اک آتی ہے منزل کہ ہر حسن والا

تمنائیوں کی تمنا کرے ہے

وہ حد سے دور ہوتے جا رہے ہیں

وہ حد سے دُور ہوتے جا رہے ہیں

بڑے مغرُور ہوتے جا رہے ہیں

بسے ہیں جب سے وہ میری نظر میں

سراپا نُور ہوتے جا رہے ہیں

جو پھوٹے آبلے دل کی خلش سے

وہ اب ناسُور ہوتے جا رہے ہیں

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
اس نزاکت پر یہ شمشیرِ جفا 
آپ سے کیونکر سنبھالی جائے گی
کیا غمِ دنیا کا ڈر مجھ رِند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی

اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے

اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
ان کو ہم قصۂ غم اپنا سنا ہی نہ سکے
ذہن میرا وہ قیامت کہ دو عالم پہ محیط
آپ ایسے کہ مِرے ذہن میں آ ہی نہ سکے
عقل مہنگی ہے بہت، عشق خلافِ تہذیب
دل کو اس عہد میں ہم کام میں لا ہی نہ سکے

کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے

کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے
کسی شیشے پہ میرا نام بھی ہے
وہ چشمِ مست مۓ بھی جام بھی ہے
پھِرے تو گردشِ ایام بھی ہے
نوائے چنگ و بربط سننے والو
پس پردہ بڑا کہرام بھی ہے

سجدہ کر کے قدم یار پہ قرباں ہونا​

سجدہ کر کے قدمِ یار پہ قرباں ہونا​
یوں لکھا تھا مِری قسمت میں مسلماں ہونا ​
جس کا مذہب ہو فقط یادِ صنم دیدِ صنم​
وہ نہیں جانتا کافر یا مسلماں ہونا ​
حُسن کو پُوجنا اور جامِ محبت پینا​
مشربِ عشق میں یوں صاحبِ ایماں ہونا ​

Saturday, 16 April 2016

اہل دل فرمائیں کیا درکار ہے

اہلِ دل فرمائیں، کیا درکار ہے؟
جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے
خار کو کوئی "کلی" کہتا نہیں
نرم ہو، نازک ہو پھر بھی خار ہے
کچھ کہیں تو آپ ہوتے ہیں خفا
چُپ رہیں تو زندگی دُشوار ہے

دل دھڑکتا ہے جام خالی ہے

دل دھڑکتا ہے جام خالی ہے
کوئی تو بات ہونے والی ہے
غمِ جاناں ہو، یا غمِ دوراں
زیست ہر حال میں سوالی ہے
حادثہ حادثے سے روکا ہے
آرزو، آرزو سے ٹالی ہے

وہ رگ دل میں رگ جاں میں رہے

وہ رگِ دل میں، رگِ جاں میں رہے
پھِر بھی ہم ملنے کے ارماں میں رہے
نیند کانٹوں پہ بھی آ جاتی ہے
گھر کہاں تھا کہ بیاباں میں رہے
رنگِ دنیا پہ نظر رکھتے تھے
عمر بھر دیدۂ حیراں میں رہے

کون اس راہ سے گزرتا ہے

کون اس راہ سے گزرتا ہے
دل یوں ہی انتظار کرتا ہے
دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے
دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے
شہرِ گل میں کٹی ہے ساری رات
دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے؟

قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے

قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے
آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے
یک بیک آ کے دِکھا دو جھُمکی
کیوں پھِراتے ہو پریشان مجھے
ایک سے ایک نئی منزل میں
لیے پھِرتا ہے تِرا دھیان مجھے

رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے

رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
جیسے سپنا کوئی اداس اداس
کیسا سنسان ہے سحر کا سماں
پتیاں محوِ یاس، گھاس اداس
خیر ہو شہرِ شبنم و گل کی
کوئی پھِرتا ہے آس پاس اداس

تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے

تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
اس طرح مل، کہ ملاقات مکمل ہو جائے
دن میں بکھرا ہوں بہت، رات سمیٹے گی مجھے
تُو بھی آ جا تو مِری ذات مکمل ہو جائے

کیسا اس بزم کے لٹنے کا سماں ہوتا ہے

کیسا اس بزم کے لٹنے کا سماں ہوتا ہے
جس پہ ہر صبح اجڑنے کا گماں ہوتا ہے
میرے روٹھے ہوئے خوابوں ہی کی آواز نہ ہو
کون یہ پچھلے پہر نوحہ کناں ہوتا ہے
عمرِ ہر غم ہے بس اتنی تِرے اک غم کے سوا
شمع بجھ جائے تو پَل بھر کو دھواں ہوتا ہے

رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا

رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا
دن کے ساحل پہ جو اترے تو اندھیرا دیکھا
خود کو لکھا بھی ہے میں نے مٹایا بھی ہے خود
قلمِ غیر نے سایہ بھی نہ میرا دیکھا
جن کے چہروں پہ چمک، نور کا ہالا اطراف
ان کے ذہنوں کو جو کھولا تو اندھیرا دیکھا

جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا

جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا
ہاتھ آیا جو یقیں،۔ وہم سراسر نکلا
اک سفر دشت خرابی سرابوں تک ہے
آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منظر نکلا
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا

Friday, 15 April 2016

تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری

تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
وہ شہر کیا ہُوا جس کی تھی ہر گلی میری
میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری
یہ سرگزشتِ زمانہ، یہ داستانِ حیات
ادھوری بات میں بھی رہ گئی کمی میری

خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا

خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا
خواب جو دیکھا نہیں وہ ابھی ادھورا رہ گیا
میں تو اس کے ساتھ ہی گھر سے نکل کر آ گیا
اور پیچھے ایک دستک،۔ ایک سایہ رہ گیا
اس کو تو پیراہنوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی
دکھ تو یہ ہے رفتہ رفتہ میں بھی ننگا رہ گیا

زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے

زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
کہیں نہ گھر سے گئے کارواں کے ہوتے ہوئے
میں کس کا نام نہ لوں اور نام لوں کس کا
ہزاروں پھول کھلے تھے خزاں کے ہوتے ہوئے
بدن کہ جیسے ہواؤں کی زد میں کوئی چراغ
یہ اپنا حال تھا اک مہرباں کے ہوتے ہوئے

گھن گھور اندھیروں میں ستارا چمکے

گھن گھور اندھیروں میں ستارا چمکے
جیسے طوفاں میں کنارا چمکے
وہی بحران ہے اب بھی لیکن
تیری آنکھوں میں اشارا چمکے
وقت بن جاتا ہے مرہم خود ہی
اشک مانندِ غبارا چمکے

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے
آدھا کام تو کر رکھا ہے
اس نے کہا تھا مت گھبرانا
ہر دیوار میں در رکھا ہے
کچھ تو اس کے معنی ہونگے
ہر شانے پر سر رکھا ہے

جو بھی حالات ہوں پیچھے نہیں ہٹنے والے

جو بھی حالات ہوں پیچھے نہیں ہٹنے والے
ہم ہیں عشاق تیری آن پہ کٹنے والے
چڑھتے سورج کو بھلا روک سکا ہے کوئی
کون کہتا ہے یہ بادل نہیں چھَٹنے والے
ہم وہ خورشیدِ جہاں تاب ہیں چمکے جو سدا
ہم کوئی چاند نہیں ہیں، جو ہوں گھٹنے والے

آنکھ میں آنسو لب پر نالے

آنکھ میں آنسو، لب پر نالے
کیسے ہیں یہ چاہنے والے
پرِیتم کا سندیسہ لے کر
گھِر آئے ہیں بادل کالے
ہم کو لے آئے منزل تک
راہ کے کانٹے، پاؤں کے چھالے

رگ احساس میں نشتر ٹوٹا

رگِ احساس میں نشتر ٹوٹا
ہاتھ سے چھوٹ کے ساغر ٹوٹا
ٹوٹنا تھا دل نازک کو نہ پوچھ
کب کہاں کس لیے کیونکر ٹوٹا
سینہ دھرتی کا لرز اٹھا ہے
آسماں سے کوئی اختر ٹوٹا

اک قیامت مری حیات بنی

اک قیامت مِری حیات بنی 
گرمئی بزم کائنات بنی 
آشنائے سکوں تھی لاعلمی 
آگہی فکرِ شش جہات بنی 
موت نے جب فنا کی دی تعلیم 
وہ گھڑی مژدۂ حیات بنی 

ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی

ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی
لوگ باقی ہیں اس جہاں میں ابھی
دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی
ساتھ ہے ایک عمر کا، لیکن
کشمکش سی ہے جسم و جاں میں ابھی

ہے واقعہ کچھ اور روایت کچھ اور ہے

ہے واقعہ کچھ اور روایت کچھ اور ہے
یاروں کو یعنی ہم سے شکایت کچھ اور ہے
سمجھی گئی جو بات ہماری غلط تو کیا
یاں ترجمہ کچھ ہے آیت کچھ اور ہے
کچھ کم نہیں بلا سے خلافت زمین کی بھی
یا رب! مِری سزا میں رعایت کچھ اور ہے

Thursday, 14 April 2016

افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے

افتادِ طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
شِدت کی محبت میں شِدت ہی کے غم پہنچے
احوال بتائیں کیا، رستے کی سنائیں کیا
با حالت زار آئے،۔ با دیدۂ نم پہنچے
جس چہرے کو دیکھا وہ آئینۂ دوری تھا
دیوار کی صورت تھا جس در پہ قدم پہنچے

کیا کیا سفر کی گردشیں ہم دیکھتے رہے

کیا کیا سفر کی گردشیں ہم دیکھتے رہے
مڑ مڑ کے اپنے نقشِ قدم دیکھتے رہے
وہ یادِ عہدِ رفتہ تھی یا کوئی خواب تھا
اک پھول سا کھِلا ہوا غم دیکھتے رہے
دریا میں عکسِ ابرِ رواں کی مثال ہم
اپنے وجود میں بھی عدم دیکھتے رہے

وہ سمجھتا ہے جو انجام تگ و تاز کا ہے

وہ سمجھتا ہے جو انجام تگ و تاز کا ہے
جو مِرا غم تھا وہی اب مِرے ہمراز کا ہے
راکھ کر دے گا جلا کر مجھے شعلے کی طرح
دل میں کھِلتا ہوا یہ پھول کس انداز کا ہے
جس کے اظہار سے ہوں سینوں میں خورشید طلوع
منتظر رات کا سناٹا اس آواز کا ہے

کہاں کا صبر سو سو بار دیوانوں کے دل ٹوٹے

کہاں کا صبر سو سو بار دیوانوں کے دل ٹوٹے
شکستِ دل کے خدشے ہی سے نادانوں کے دل ٹوٹے
گرے ہیں ٹوٹ کر کچھ آئینے شاخوں کی پلکوں سے
یہ کس کی آہ تھی، کیوں شبنمستانوں کے دل ٹوٹے
اس آرائش سے تو کچھ اور ابھری ان کی ویرانی
ببولوں پر بہار آئی تو ویرانوں کے دل ٹوٹے

غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا

غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا
میری جانب سے تِرے دل میں غبار آ ہی گیا
جانتا تھا کھا رہا ہے بے وفا جھوٹی قسم
سادگی دیکھو کہ پھر بھی اعتبار آ ہی گیا
پوچھنے والوں سے گو میں نے چھپایا دل کا راز
پھر بھی تیرا نام لب پر ایک بار آ ہی گیا

گاہ درد و رنج و غم ہے گاہ ارماں دل میں ہے

گاہ درد و رنج و غم ہے، گاہ ارماں دل میں ہے
ایک جانِ زار سو سو طرح کی مشکل میں ہے
چٹکیاں لینا،۔ مچل جانا،۔ بگڑنا،۔ روٹھنا
ہائے اک کم سِن کی کیا کیا یاد آتی دل میں ہے
اس قدر بے درد ہے دل تیرے کوچے میں صنم
جیسے اک ٹوٹا ہوا ساغر کسی محفل میں ہے

بتا نصیب کہ ہم بے وطن کدھر جائیں

بتا نصیب! کہ ہم بے وطن کدھر جائیں
یہی زمیں ہے، یہی آسماں جدھر جائیں
کوئ بتاۓ کہ گزرے ہوۓ خوشی کے دن
کہاں ملیں گے، انہیں ڈھونڈنے اگر جائیں
جگر میں داغ، کلیجے میں زخم، سر پر خاک
شکستہ حال کہاں لے کے چشمِ تر جائیں

چوری کہیں کھلے نہ نسیم بہار کی

چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
جرأت تو دیکھئے گا نسیمِ بہار کی
یہ بھی بلائیں لینے لگی زلفِ یار کی
اللہ رکھے اس کا سلامت غرورِ حسن
آنکھوں کو جس نے دی ہے سزا انتظار کی

Wednesday, 13 April 2016

وہ بیچارے جو کبھی پیار کی بازی ہارے

وہ بے چارے جو کبھی پیار کی بازی ہارے
در بدر خاک بسر پھرتے ہیں مارے مارے
آنے والے کی مہک بھی تو ہواؤں میں نہیں
میری پلکوں سے یہ کیوں جھانک رہے ہیں تارے
کیا خبر حال مِرا کیا ہو سحر ہونے تک
آج کی رات نہ جا چھوڑ کے مجھ کو پیارے

خرد کے نام جنوں کا پیام لے کے چلے

خرد کے نام جنوں کا پیام لے کے چلے
ہم اپنے ساتھ ہی اپنا مقام لے کے چلے
سکوتِ شام کا مطلب کوئی سمجھ نہ سکا
بس اک ہمی تِری محفل میں جام لے کے چلے
بٹھا دئیے ہیں کسی نے بہار پر پہرے
صبا چلے بھی تو اِذنِ خرام لے کے چلے

اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا

اک کھلونا ٹوٹ جائے گا،۔ نیا مل جائے گا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا
بھاگتا ہوں ہر طرف ایسے ہوا کے ساتھ ساتھ
جس طرح سچ مچ مجھے اس کا پتا مل جائے گا
کس طرح روکو گے اشکوں کو پسِ دیوار چشم
یہ تو پانی ہے، اسے تو راستہ مل جائے گا

اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محو فغاں کیوں ہو

اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محوِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو آتش درختوں میں تو جنگل میں دھواں کیوں ہو
یہ میرا درد اپنا ہے، کسی پر بھی عیاں کیوں ہو
کسی کی آنکھ سے میرا کوئی آنسو رواں کیوں ہو
جدائی آپ مانگی ہے تو پھر یادیں بھی کیوں اسکی
اگر اتنے جفا کش ہو تو زیرِ سائباں کیوں ہو

اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا

اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
سویا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا
خواہش کی گرمیاں تھیں عجب ان کے جسم میں
خوباں کی صحبتوں میں مِرا خون جل گیا

اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں

اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردئ مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگِ ناگہاں
گھِر گئی خاکِ زمیں جیسے حصارِ آب میں
حاصلِ جہدِ مسلسل،۔ مستقل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں

ہم نے دیکھا ہے فقط ایک ہی دستور میاں

ہم نے دیکھا ہے فقط ایک ہی دستُور میاں
ہجر میں ہوتی ہے ہر شب شبِ عاشُور میاں
تم تو آغازِ سفر میں ہی ہوئے چُور میاں
یہ محبت ہے جو رہتی ہے بہت دُور میاں
ایک دو دن کی مصیبت ہو تو کٹ جاتی ہے
عشق ہو جائے تو بن جاتا ہے ناسُور میاں

جہان آرزو بکھرا بہاروں پر الم ٹوٹے

جہانِ آرزو بکھرا، بہاروں پر الم ٹُوٹے
گریزاں ہو گئے جب خواب آنکھوں سے تو ہم ٹوٹے
کبھی پلکوں پہ جب اترا تصور آشیانے کا
یہ مت پوچھو کہ کتنے چاند زیرِ چشمِ نم  ٹوٹے
مکمل کر نہ پایا زندگی کا فلسفہ کوئی
نہ جانے لفظ کتنے بجھ گئے، کتنے قلم ٹوٹے

جو تمہارے حضور ہوتا ہے

جو تمہارے حضور ہوتا ہے
وہ زمانے سے دور ہوتا ہے
اپنی اپنی وفاؤں پر سب کو
تھوڑا تھوڑا غرور ہوتا ہے
بے رخی کا گِلہ کریں نہ کریں
دل کو صدمہ ضرور ہوتا ہے

جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدیئے

جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدیئے
یہ جنس ہے گِراں مگر ارزاں خریدیئے
نظروں کے سامنے ہیں شب غم کے مرحلے
کچھ خون ہے تو صبح درخشاں خریدیئے
یوں بھی نہ کھل سکا نہ کوئی زندگی کا راز
دل دے کے کیوں نہ دیدۂ حیراں خریدیئے

Tuesday, 12 April 2016

دل والو کیا دیکھ رہے ہو ان راہوں میں

دل والو کیا دیکھ رہے ہو ان راہوں میں
حدِ نظر تک یہ ویرانی ساتھ چلے گی
گھر کے اندر سارے جنگل کا سناٹا
شام ہوئی تو اس جنگل میں ہوا چلے گی
جن کے ہاتھوں دل کی یہ توہین ہوئی ہے
ان کے لیے بھی یہ دنیا ایسی نہ رہے گی

پارہ پارہ ہوا پیراہن جاں

پارہ پارہ ہُوا، پیراہنِ جاں
پھر مجھے چھوڑ گئے چارہ گراں
کوئی آہٹ، نہ اشارہ، نہ سراب
کیسا ویراں ہے یہ دشتِ امکاں
چار سُو خاک اڑاتی ہے ہوا
از کراں تا بہ کراں ریگِ رواں

مسکن ماہ و سال چھوڑ گیا

مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا
دِل کو اس کا خیال چھوڑ گیا
تازہ دم جسم و جاں تھے فرقت میں
وصل، اس کا نِڈھال چھوڑ گیا
عہدِ ماضی جو تھا عجب پُر حال
ایک وِیران حال چھوڑ گیا

سو رہا تھا تو شور برپا تھا

سو رہا تھا تو شور برپا تھا
اٹھ کے دیکھا تو میں اکیلا تھا
خاک پر میرے خواب بکھرے تھے
اور میں ریزہ ریزہ چنتا تھا
چار جانب وجود کی دیوار
اپنی آواز میں ہی سنتا تھا

بال آیا نہ چھنک کے ٹوٹے

شکست

بال آیا نہ چھنک کے ٹُوٹے
ٹُوٹنا جن کا مقدر ٹُوٹے
لب پہ الفاظ تو خواب آنکھوں میں
وہ ستارے ہوں کہ ساغر، ٹُوٹے
حُسنِ تخلیق کی توہین ہوئی
نازِ تخیل کی شہپر ٹُوٹے