Saturday, 30 April 2016
تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
اس طرح محبت میں دل پہ حکمرانی ہے
در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
جگر کی آگ بجھے جلد جس میں وہ شے لا
دل ستم زدہ بے تابیوں نے لوٹ لیا
غلط معانی دئیے جاتے ہیں زیر لب تبسم کو
کچھ ایسے زخم بھی درپردہ ہم نے کھائے ہیں
صد شکر اتنا ظرف مری چشم تر میں ہے
Friday, 29 April 2016
ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے
میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
ترا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے
نہ سہی ساز غمساز تو ہے
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
نگاہوں کا اثر کام آ رہا ہے
کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
فضا کو دیکھ کے ذوق نظر پہ کیا گزری
کبھی بلندی ذوق نظر تک آ پہنچی
جستجو ہی جستجو بن جائیں گے
بہت ہوا رو دیتے تھے
راستہ اس کا جو روکے گا وہ مر جائے گا
سب کا پیرایہ اظہار بدل جاتا ہے
ہم کہاں شیریں سخن ہیں تلخیاں اتنی کہ بس
وہ حادثہ عجیب تھا جو ہو گیا سو ہو گیا
خود سری کا بھرم نہ کھل جائے
کیا کیا پیام غم کدہ دل سے آئے ہیں
کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی
کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
یہ بھی کیا شام ملاقات آئی
اس شوخ نے نگاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے
محبت کی دنیا میں سب کچھ حسیں ہے
زندگی کا لطف بھی آ جائے گا
Thursday, 28 April 2016
پھر گل و گلزار کی باتیں کریں
مریں بھی تو کیا جب جیا جائے نا
آنکھوں پر الزام بہت ہیں
سامنے آنکھوں کے گھر کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
دنیا بنی تو حمد و ثنا بن گئی غزل
وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا
جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے
خیال مرگ کے آتے ہی ڈر گیا میں تو
Wednesday, 27 April 2016
کرتا
تِرے تصورمیں جگمگاتا سفید کرتا
سفید کرتے میں
تُو نے جتنی بھی کہکشاؤں کے رنگ دیکھے
وہ کتنے تیکھے تھے، کتنے پھیکے
کلف لگے اس سفید کرتے پہ تُو نے کھینچیں
اسے کیا خبر ہے
کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے
وہ اپنے ہی خوابوں، خیالوں میں کھوئی
کبھی جاگتی اور کبھی سوئی سوئی
کوئی اور اِسمِ وفا پڑھ رہی ہے
محبت کے دل میں اترتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے
ہوا چل رہی ہے
ہوا ساحلوں کی طرف چل رہی ہے
سمندر کی لہروں پر اڑتے پرندے
کہاں جا رہے ہیں
ہم اپنی اڑانیں اگر یاد رکھتے
تو اڑتے پرندوں سے یہ پوچھ لیتے
کہاں جا رہے ہو
ہوئے ہجرت پہ مائل پھر مکیں آہستہ آہستہ
قفس ہے جو بہ شکل سائباں رکھا ہوا ہے
پوچھ مت نارسا دعاؤں کی
دیکھے نہ فقیری کو کوئی شک سے ہماری
وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں ترے شہر میں
وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں تِرے شہر میں
تُو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں سبھی رونقیں ترے شہر میں
مِری بے بسی کی کتاب کا کوئی ورق تُو نے پڑھا نہیں
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں مِری خواہشیں ترے شہر میں
سبھی ہاتھ مجھ پہ اٹھے یہاں سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے
مِری سادگی کے لباس پر پڑیں سلوٹیں ترے شہر میں
مٹے ماضی کے کتبوں کو گرا کر بھول جاتا ہوں
جس نے بتوں سے حکم بغاوت دیا نہیں
اب نہ فریاد نہ ماتم نہ فغاں اے ساقی
رخ پہ یہ چاندنی جو پھیلی ہے
مرے دل تلک نہ پہنچے تری چشم سرمہ سا سے
گا رہا تھا کوئی درختوں میں
درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
تو ہے یا تیرا سایہ ہے
پھر نئی فصل کے عنواں چمکے
Tuesday, 26 April 2016
ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے
غم دل کے بسیروں میں آباد بہت سے ہیں
جس روپ میں تو چاہے میں ڈھلتا رہوں ہر دم
میری تعریف بھی جھوٹی ہی سہی لکھو نا
میاں ہم شاعری سے پیار کے پرچم بناتے ہیں
Sunday, 24 April 2016
اتنی سی بات کا اتنا بڑا افسانہ بنا
ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہو گا چاند
دل کے اجلے کاغذ پر ہم کیسا گیت لکھیں
پھول کو خار سے نوکیلا بنا دیتے ہیں
پھول کو خار سے نوکیلا بنا دیتے ہیں
وسوسے رشتوں کی بنیاد ہلا دیتے ہیں
غمزدہ دیکھ کے مایوس نہ ہو بذلہ سنج
دل دکھا ہو تو لطیفے بھی رُلا دیتے ہیں
سرخ ذروں میں بدل دیتی ہے اشکوں کی تڑپ
بعض غم جینے کے انداز سِکھا دیتے ہیں
بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر
گماں یک طرفہ ہے سفر ہے یک طرفہ
یہ میں کس شہر کے نواح میں ہوں
برسات کا موسم ہے گھٹا جھوم رہی ہے
صد چاک ہوا گو جامۂ تن مجبوری تهی سینا ہی پڑا
آستیں میری ہے اور دیدۂ تر ہے اے دوست
اب مِرے اشک کا قطرہ بھی گہر ہے اے دوست
یہ نہ دیکھا کہ تبسم کی تہوں میں کیا ہے
کس قدر کور محبت کی نظر ہے اے دوست
دل تھا محتاط تو در بھی نظر آئے دیوار
دل ہے بیتاب تو دیوار بھی در ہے اے دوست
تو نے سینے کو جب تک خلش دی نہ تھی تو نے جذبوں کو جب تک ابھارا نہ تھا
یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہوا
مے پلا کر آپ کا کیا جائے گا
عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
نفس کے لوچ میں رم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو سنسار کو تم کیا پاؤ گے
کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے
Saturday, 23 April 2016
اس مرض کو شفا سے کیا مطلب
راز سربستہ محبت کے زباں تک پہنچے
غم سے گر آزاد کرو گے
اور مجھے ناشاد کرو گے
تم سے، اور امید وفا کی
تم، اورمجھ کو یاد کرو گے
وِیراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے
پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا
قریہ معرفت جہاں تک ہے
اک سمندر ہے اور بھنور کتنے
دشت فرقت میں دے صدا مجھ کو
اسیری میں یہی تھا اک سہارا
پھر اسی مہ لقا کی یاد آئی
وقت پڑا تو راز یہ پایا
Friday, 22 April 2016
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
خیال لب میں ابر دیدہ ہائے تر برستے ہیں
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
چھن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی
چاندی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے
Thursday, 21 April 2016
ہم بھی شکستہ دل ہیں پریشان تم بھی ہو
زندگی تو نے جو بازار سجا رکھا ہے
اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے
اپنی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دکھ
میں سنبھلتا ہوں مرا یار مجھے توڑتا ہے
چاند اگا ہے پروا سنکی چلنا ہے تو چل
خفا کیوں ہو اگر تلوار تک ہم سے نہیں اٹھتی
عشق و وفا کی راہ گزر میں زیرِ قدم جب کانٹے آئے
Wednesday, 20 April 2016
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
درد بڑھتا گیا جتنے درماں کئے
نہیں کہ جادۂ عیش و نشاط پا نہ سکے
مگر ہم اپنا ذوقِ نظرِ گرا نہ سکے
تجھے تو کیا تِری جلووں کی ضو بھی پا نہ سکے
جو زندگی کو تِری راہ میں لٹا نہ سکے
گلہ ہی کیا ہے اگر غیر کام آ نہ سکے
خود اپنے اشک بھی دل کی لگی بجھا نہ سکے
پرانے خواب کا تاوان
حسیں خوابوں سا منظر ہے
مگر یہ خوشنما منظر
میری آنکھوں کو رعنائی نہیں تکلیف دیتا ہے
کوئی خوشبو بھرا جھونکا
اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو
جو میری آنکھ کی پتلی میں کہیں زندہ تھا
سہمے بچے کی طرح
بند ہونٹوں میں دبی ایک مقدس سی دعا کی مانند
اس حسیں خواب کی تعبیر ملی ہے، لیکن
پھول زخموں کے کھِلے ہیں اتنے
مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا
کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
کبھی رستہ نہیں ملتا کبھی محور نہیں ملتا
کیا بات بتاؤں میں تمہیں خوش نظراں کی
ہنستے گاتے روتے پھول
دیس سبز جھیلوں کا
دنیا مری نظر سے تجھے دیکھتی رہی
سمجھ میں چارہ گر کی آئے گا کیا
دم آخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
دمِ آخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
جہاں سے اٹھ گئے اہلِ جہاں سے کچھ نہ کہا
چلی جو کشتئ عمرِ رواں تو چلنے دی
رکی تو کشتئ عمرِ رواں سے کچھ نہ کہا
خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی
بدل کے رہ گئے تیور، زباں سے کچھ نہ کہا
زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
چلتی پھرتی یہ زمانے کی ہوا ہوتی ہے
سیر دنیا کی، نہ کچھ یاد خدا ہوتی ہے
عمر انہی جھگڑوں میں تاراج فنا ہوتی ہے
روح جب قالبِ خاکی سے جدا ہوتی ہے
کس کو معلوم، کہاں جاتی ہے، کیا ہوتی ہے
آب حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
یہاں طالعوں سے ملتا ہے پیارا
Tuesday, 19 April 2016
ایک ہی بار بار ہے اماں ہاں
جبر پر اختیار ہے اماں ہاں
یہاں تو کوئی منچلا ہی نہیں
ہے عجب حال یہ زمانے کا
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراق دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مِرے فسانے میں
وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجھکے جو رنگ لانے میں
کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے
ایک آنکھوں کا اثر تاثیر اک رفتار کی
زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پہ تان لیا
یہ چاہتیں یہ پزیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
میرے بس میں نگار زندگی ہے
مجھے اب اعتبارِ زندگی ہے
درِ دل پر کسی نے دی ہے دستک
مجھے تو انتظارِ زندگی ہے
پِلا دی تھی نگاہوں سے کسی نے
ہمیں اب تک خمارِ زندگی ہے
ہم تو قاتل کی رضا پوچھ لیا کرتے ہیں
ہم تو قاتل کی رضا، پوچھ لیا کرتے ہیں
چوٹ کھاتے ہیں مگر ساتھ ہی گھائل تیرے
لذتِ آہ و بکا، پوچھ لیا کرتے ہیں
ہم وہ مجرم ہیں کہ ہر جرمِ وفا سے پہلے
بے گناہی کی سزا، پوچھ لیا کرتے ہیں
کیا کہیے روئے حسن پہ عالم نقاب کا
کوئی ادا شناس محبت ہمیں بتائے
نہیں تم مانتے میرا کہا جی
غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں
رخ تہ زلف سیاہ فام کہاں تک دیکھوں
نامہ بر آتے رہے جاتے رہے
روٹی کپڑا اور مکان
دل جل رہے ہیں دوستو غم کے الاؤ میں
بچے بھی مبتلا ہیں دماغی تناؤ میں
پانی کی طرح بہتی ہے دولت چناؤ میں
یکجہتی کا تو نام نہیں رکھ رکھاؤ میں
اک آدمی کے واسطے پتلون، شرٹ، کوٹ
اک آدمی کے واسطے ممکن نہیں لنگوٹ
بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے
بادل ہیں کہیں اور نہ اشجار نمایاں
دور ہی دور سے اک خواب دکھائی دے گا
پرزے پرزے تو کر دیا مجھ کو
Monday, 18 April 2016
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
جو مجھے بھلا دیں گے میں انہیں بھلا دوں گا
اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے
دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے
ہزاروں میں بس اک تیری لگن محسوس کرتے ہیں
دل والوں کی بات چلی ہے افسانہ در افسانہ
تیرے افسانے سناتے ہیں مجھے
روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے
ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے
کچھ ہجر کے موسم نے ستایا نہیں اتنا
یوں دل میں تری یاد اتر آتی ہے جیسے
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا
غم عشرت سے ترساں عشرت غم لے کے آئے ہیں
صبر آیا نہ تاب آوے ہے
نہ دعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے
تم جو اے جان ہمیں شکل دکھانے کے نہیں
کہتا ہے تو مجھے کہ نہ جا کوئے یار کو
مفت سودا ہے ارے یار کہاں جاتا ہے
مبتلائے عشق کو اے ہمدماں شادی کہاں
اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
کھا پیچ و تاب مجھ کو ڈسیں اب وہ کالیاں
شیخ تو تو مرید ہستی ہے
مۓ غفلت کی تجھ کو مستی ہے
طوفِ دل چھوڑ جائے کعبہ کو
بس کہ فطرت میں تیری پستی ہے
کیوں چڑھے ہیں گدھے گدھے اوپر
تیری داڑھی کو خلق ہنستی ہے
یار کا مجھ کو اس سبب سے ڈر ہے
خال اس کے نے دل لیا میرا
چھپا نہیں جابجا حاضر ہے پیارا
اک اضطراب ہے الجھن ہے کیا کیا جائے
دل و دماغ میں ان بن ہے کیا کیا جائے
درست ہی سہی، دشمن سے دوستی کا خیال
ہمارا دوست ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
ہر ایک پھول دہکتا ہوا ہے انگارہ
عجیب صورتِ گلشن ہے کیا کیا جائے
بہ عنوان خلوص دل کہیں ایسا نہ کر لینا
تماشابن کے اپنے آپ کو رسوا نہ کر لینا
تقاضا ابرباراں کا ہے پی لے جھوم کر واعظ
پھر اس کے بعد سو توبہ سر مے خانہ کر لینا
بہت نازک زمانہ ہے ضمیر اپنا سلامت رکھ
کہیں نا سمجھی میں ایمان کا سودا نہ کر لینا
گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں
شوق بڑھتا ہے مرے دل کا دل افگاروں کے بیچ
دل نے پکڑی ہے یار کی صورت
سنوارے ہے گیسو تو دیکھا کرے ہے
سنوارے ہے گیسو تو دیکھا کرے ہے
وہ اب دل کو آئینہ جانا کرے ہے
نہ باتیں کرے ہے نہ دیکھا کرے ہے
مگر میرے بار میں سوچا کرے ہے
محبت سے وہ دشمنی ہے کہ دنیا
ہوا بھی لگے ہے تو چرچا کرے ہے
اک آتی ہے منزل کہ ہر حسن والا
تمنائیوں کی تمنا کرے ہے
وہ حد سے دور ہوتے جا رہے ہیں
وہ حد سے دُور ہوتے جا رہے ہیں
بڑے مغرُور ہوتے جا رہے ہیں
بسے ہیں جب سے وہ میری نظر میں
سراپا نُور ہوتے جا رہے ہیں
جو پھوٹے آبلے دل کی خلش سے
وہ اب ناسُور ہوتے جا رہے ہیں
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے
کسی شیشے پہ میرا نام بھی ہے
وہ چشمِ مست مۓ بھی جام بھی ہے
پھِرے تو گردشِ ایام بھی ہے
نوائے چنگ و بربط سننے والو
پس پردہ بڑا کہرام بھی ہے
سجدہ کر کے قدم یار پہ قرباں ہونا
Saturday, 16 April 2016
اہل دل فرمائیں کیا درکار ہے
دل دھڑکتا ہے جام خالی ہے
وہ رگ دل میں رگ جاں میں رہے
کون اس راہ سے گزرتا ہے
قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے
رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
کیسا اس بزم کے لٹنے کا سماں ہوتا ہے
رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا
جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا
ہاتھ آیا جو یقیں،۔ وہم سراسر نکلا
اک سفر دشت خرابی سرابوں تک ہے
آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منظر نکلا
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا
Friday, 15 April 2016
تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا
زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
گھن گھور اندھیروں میں ستارا چمکے
اس کو نظر میں بھر رکھا ہے
جو بھی حالات ہوں پیچھے نہیں ہٹنے والے
آنکھ میں آنسو لب پر نالے
رگ احساس میں نشتر ٹوٹا
اک قیامت مری حیات بنی
ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی
ہے واقعہ کچھ اور روایت کچھ اور ہے
Thursday, 14 April 2016
افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
کیا کیا سفر کی گردشیں ہم دیکھتے رہے
وہ سمجھتا ہے جو انجام تگ و تاز کا ہے
کہاں کا صبر سو سو بار دیوانوں کے دل ٹوٹے
غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا
گاہ درد و رنج و غم ہے گاہ ارماں دل میں ہے
بتا نصیب کہ ہم بے وطن کدھر جائیں
یہی زمیں ہے، یہی آسماں جدھر جائیں
کوئ بتاۓ کہ گزرے ہوۓ خوشی کے دن
کہاں ملیں گے، انہیں ڈھونڈنے اگر جائیں
جگر میں داغ، کلیجے میں زخم، سر پر خاک
شکستہ حال کہاں لے کے چشمِ تر جائیں
چوری کہیں کھلے نہ نسیم بہار کی
Wednesday, 13 April 2016
وہ بیچارے جو کبھی پیار کی بازی ہارے
خرد کے نام جنوں کا پیام لے کے چلے
اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محو فغاں کیوں ہو
اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
ہم نے دیکھا ہے فقط ایک ہی دستور میاں
جہان آرزو بکھرا بہاروں پر الم ٹوٹے
جو تمہارے حضور ہوتا ہے
جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدیئے
Tuesday, 12 April 2016
دل والو کیا دیکھ رہے ہو ان راہوں میں
پارہ پارہ ہوا پیراہن جاں
مسکن ماہ و سال چھوڑ گیا
دِل کو اس کا خیال چھوڑ گیا
تازہ دم جسم و جاں تھے فرقت میں
وصل، اس کا نِڈھال چھوڑ گیا
عہدِ ماضی جو تھا عجب پُر حال
ایک وِیران حال چھوڑ گیا