Saturday 16 April 2016

دل دھڑکتا ہے جام خالی ہے

دل دھڑکتا ہے جام خالی ہے
کوئی تو بات ہونے والی ہے
غمِ جاناں ہو، یا غمِ دوراں
زیست ہر حال میں سوالی ہے
حادثہ حادثے سے روکا ہے
آرزو، آرزو سے ٹالی ہے
ٹوٹ کر دل ہے اس طرح خاموش
ہم نے گویا مُراد پا لی ہے
کیا زیاں کا گِلہ کریں باقیؔ
کچھ طبیعت ہی لااُبالی ہے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment