Wednesday, 27 April 2016

مٹے ماضی کے کتبوں کو گرا کر بھول جاتا ہوں

مِٹے ماضی کے کتبوں کو گِرا کر بھُول جاتا ہوں
میں یوں خوابوں کی اب قبریں بنا کر بھُول جاتا ہوں
بڑے ہی شوق سے لکھتا ہوں میں سب نام اب دل پر
پھر اس کے بعد خود ان کو مِٹا کر بھُول جاتا ہوں
جوانی کے زمانے کو کھڑے بارش کے پانی میں
میں کاغذ کی کوئی کشتی بہا کر بھُول جاتا ہوں
یہ کیا ہر روز ہی تم سے وہی اک طرز کی باتیں
چلو پھر آج سب تم کو بتا کر بھُول جاتا ہوں
عقیلؔ اپنے مقدر کو کسی فُرقت کی ساعت میں
میں ان ہاتھوں سے ہاتھ اپنا چھُڑا کر بھُول جاتا ہوں

عقیل شاہ

No comments:

Post a Comment