مِٹے ماضی کے کتبوں کو گِرا کر بھُول جاتا ہوں
میں یوں خوابوں کی اب قبریں بنا کر بھُول جاتا ہوں
بڑے ہی شوق سے لکھتا ہوں میں سب نام اب دل پر
پھر اس کے بعد خود ان کو مِٹا کر بھُول جاتا ہوں
جوانی کے زمانے کو کھڑے بارش کے پانی میں
یہ کیا ہر روز ہی تم سے وہی اک طرز کی باتیں
چلو پھر آج سب تم کو بتا کر بھُول جاتا ہوں
عقیلؔ اپنے مقدر کو کسی فُرقت کی ساعت میں
میں ان ہاتھوں سے ہاتھ اپنا چھُڑا کر بھُول جاتا ہوں
عقیل شاہ
No comments:
Post a Comment