Friday, 29 April 2016

میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا

میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
اک اور حادثہ مجھ پر گزرنے والا تھا
کہیں سے آ گیا اک ابر درمیاں، ورنہ
مِرے بدن میں یہ سورج اترنے والا تھا
مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے
سکوتِ شب کی طرح میں بکھرنے والا تھا
عجیب لمحۂ کمزور سے میں گزرا ہوں
تمام سلسلہ پل میں بکھرنے والا تھا
میں لڑکھڑا سا گیا سایۂ شجر میں ضرور
میں رستے میں مگر کب ٹھہرنے والا تھا
اب آسماں بھی بڑا شانت ہے زمیں بھی سکھی
گزر گیا ہے جو ہم پر گزرنے والا تھا
لگا جو پیٹھ میں آ کر وہ تیر تھا کس کا
میں دشمنوں کی صفوں میں نہ مرنے والا تھا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment