Wednesday 27 April 2016

گا رہا تھا کوئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آ گئی درختوں میں
چاند نکلا افق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مِینہْ برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں
ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین
دور آندھی چلی درختوں میں
لیے جاتے ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجبنی درختوں میں
کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دور
جاکے دیکھو کبھی درختوں میں
نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں
خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
دیر تک اس کی تیز آنکھوں میں
روشنی سی رہی درختوں میں
چلتے چلتے ڈگر اجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں
سہمے سہمے تھے رات اہل چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment