Sunday, 24 April 2016

آستیں میری ہے اور دیدۂ تر ہے اے دوست

آستیں میری ہے اور دیدۂ تر ہے اے دوست
اب مِرے اشک کا قطرہ بھی گہر ہے اے دوست
یہ نہ دیکھا کہ تبسم کی تہوں میں کیا ہے
کس قدر کور محبت کی نظر ہے اے دوست
دل تھا محتاط تو در بھی نظر آئے دیوار
دل ہے بیتاب تو دیوار بھی در ہے اے دوست
عقل اور عشق میں مدت سے ہے اک حالتِ جنگ
اور مِرا دل نہ اِدھر ہے نہ اُدھر ہے اے دوست
عشق سے ہو نہ سکا تیری امانت کا لحاظ
آئینہ ٹوٹ گیا تجھ کو خبر ہے اے دوست
ہو نہ زحمت تو اچٹتی سی نظر سُوئے جمیلؔ
یہ گدا سائلِ یک زخمِ جگر ہے اے دوست

جمیل مظہری

No comments:

Post a Comment