نگاہوں کا اثر کام آ رہا ہے
کوئی اڑتا ہوا جام آ رہا ہے
خدارا اپنے جلوؤں کی خبر لو
مِری نیت پہ الزام آ رہا ہے
پھر آنے کو ہیں دن رسوائیوں کے
بہارو! سوچ لو انجام اپنا
چمن میں پھر وہ گلفام آ رہا ہے
کسی کی اب تمنا کیوں کریں ہم
تڑپ کر بھی تو آرام آ رہا ہے
قتیلؔ اک ریشمی آنچل کا سایہ
غموں کی دھوپ میں کام آ رہا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment