Friday 22 April 2016

چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور

چمکی ہے جب سے برقِ سحر گلستاں کی اور 
جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں، کہ رفتگاں
منہ کر کے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگِ سخن تو دیکھ، کہ حیرت سے باغ میں
رہ جاتے ہیں گے دیکھ کے گل اس دہاں کی اور
آنکھیں سی کھل ہی جائیں گی جو مر گیا کوئی
دیکھا نہ کر غضب سے کسو خستہ جاں کی اور
یاں تابِ سعی کس کو، مگر جذب عشق کا 
لاوے اسی کو کھینچ کسو ناتواں کی اور
یا رب! ہے کیا مزا سخنِ تلخِ یار میں
رہتے ہیں کان سب کے، اسی بدزباں کی اور
یا دل وہ دیدنی تھی جگہ، یا کہ تجھ بغیر
اب دیکھتا نہیں ہے کوئی اس مکاں کی اور
کیا حال ہو گیا ہے تِرے غم میں میرؔ کا
دیکھا گیا نہ ہم سے تو، ٹک اس جواں کی اور

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment