سامنے آنکھوں کے گھر کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
کیا کرے وہ جس کا دل پتھر بنے اور ٹوٹ جائے
ہائے رے ان کے فریبِ وعدۂ فردا کا جال
دیکھتے ہی دیکھتے اک در بنے اور ٹوٹ جائے
حادثوں کی ٹھوکروں سے چُور ہونا ہے تو پھر
ہم بھی لے لیں لطفِ تیرِ نیم کش گر وہ نظر
آتے آتے قلب تک خنجر بنے اور ٹوٹ جائے
ان کے دامن کی ہوا بھی کس کو ہوتی ہے نصیب
آج ہر آنسو مِرا گوہر بنے اور ٹوٹ جائے
یوں بکھرتا ہی رہا اے طرزؔ ہر سپنا مِرا
صبح جیسے خواب کا منظر بنے اور ٹوٹ جائے
گنیش بہاری طرز
No comments:
Post a Comment