Thursday, 28 April 2016

سامنے آنکھوں کے گھر کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے

سامنے آنکھوں کے گھر کا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
کیا کرے وہ جس کا دل پتھر بنے اور ٹوٹ جائے
ہائے رے ان کے فریبِ وعدۂ فردا کا جال
دیکھتے ہی دیکھتے اک در بنے اور ٹوٹ جائے
حادثوں کی ٹھوکروں سے چُور ہونا ہے تو پھر
کیوں نہ خاموشی سے دل ساغر بنے اور ٹوٹ جائے
ہم بھی لے لیں لطفِ تیرِ نیم کش گر وہ نظر
آتے آتے قلب تک خنجر بنے اور ٹوٹ جائے
ان کے دامن کی ہوا بھی کس کو ہوتی ہے نصیب
آج ہر آنسو مِرا گوہر بنے اور ٹوٹ جائے
یوں بکھرتا ہی رہا اے طرزؔ ہر سپنا مِرا
صبح جیسے خواب کا منظر بنے اور ٹوٹ جائے

گنیش بہاری طرز

No comments:

Post a Comment