Wednesday 27 April 2016

تو ہے یا تیرا سایہ ہے

تُو ہے یا تیرا سایا ہے
بھیس خدائی نے بدلا ہے
دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قُفل پڑا ہے
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
تنہائی کو کیسے چھوڑوں
برسوں میں ایک یار ملا ہے
رات اندھیری ناؤ ساتھی
رستے میں دریا پڑتا ہے
ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصرؔ
آج کسی نے یاد کیا ہے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment