Wednesday 20 April 2016

کیا بات بتاؤں میں تمہیں خوش نظراں کی

مُسکا کے جدھر دیکھیں، نئے پھول کھِلا دیں
کیا بات بتاؤں میں تمہیں خوش نظراں کی
اٹکھیلیاں کرتی ہے تِری یاد بھی کیا کیا
دل تک چلی آئی ہے ٹہلتی ہوئی بانکی
اے عہدِ گزشتہ کو بلاتے ہوئے لوگو
قیمت نہیں معلوم تمہیں عمرِ رواں کی
کمزور سا اک تیشہ بدست آدمی ہوں میں
کیا دیدنی حالت ہے مگر کوہِ گِراں کی
گفتار کے کردار کے سچے ہیں سو ہم نے
جو بات وہاں کی تھی، وہی بات یہاں کی
ہر جھوٹ سے اک چھالہ بنے گا، جو پھٹے گا
پھر کس کو بتاؤ گے جو حالت ہے زباں کی

رحمان حفیظ 

No comments:

Post a Comment