Thursday, 28 April 2016

پھر گل و گلزار کی باتیں کریں

“آؤ حسن یار کی باتیں کریں”
پھر گل و گلزار کی باتیں کریں
پیکرِ دلدار کی باتیں کریں
یعنی نور و نار کی باتیں کریں
دل کے کانٹوں کو بنائیں گلستاں
اس لب و رخسار کی باتیں کریں
منہ لگائیں پھر مہ و مہتاب کو
عارض و رخسار کی باتیں کریں
زخمِ دل کو اک ذرا پھر چھیڑ دیں
ابروئے خم دار کی باتیں کریں
عطرِ پیراہن کریں ہر سانس کو
زلفِ عنبر بار کی باتیں کریں
بے پیے ہی جھوم جائیں ایک بار
دیدۂ سرشار کی باتیں کریں
حافظ و غالب ہوں یا جوش و اریبؔ
ہاں کسی مے خوار کی باتیں کریں

سلیمان اریب

No comments:

Post a Comment