Saturday 23 April 2016

غم سے گر آزاد کرو گے

غم سے گر آزاد کرو گے
اور مجھے ناشاد کرو گے
تم سے، اور امید وفا کی
تم، اورمجھ کو یاد کرو گے
وِیراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے
عہدِ وفا کو بھولنے والو
تم کیا مجھ کو یاد کرو گے
آخر وہ ناشاد رہے گا
تم جس دل کو شاد کرو گے
میری وفائیں، اپنی جفائیں
یاد آئیں گی، یاد کرو گے
میری طرح سے تم بھی اک دن
تڑپو گے، فریاد کرو گے
ختم ہوئے انداز جفا کے
اور ابھی برباد کرو گے
کون پھر اس کو شاد کرے گا
جس کو تم ناشاد کرو گے
رہنے بھی دو عُذرِ جفا کو
اور سِتم ایجاد کرو گے
دادِ وفا سمجھیں گے اس کو
ہم پر جو بے داد کرو گے
دیکھو، ہم کو بھول نہ جانا
بھولو گے تو یاد کرو گے
لے کر نام حفیظؔ! کسی کا
کب تک یوں فریاد کرو گے

حفیظ ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment