Thursday 28 April 2016

وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا

وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا
بھوک اتنی تھی کہ مجھ کو زہر بھی اچھا لگا
چھوڑ کر جس کو بہت ہی خوش ہوا تھا میں کبھی
دیکھ کر دنیا مجھے وہ شہر بھی اچھا لگا
اجنبی لگتی تھی اپنے وقت کی ہر ایک چیز
وہ مِلا تو مجھ کو اپنا دہر بھی اچھا لگا
سطح پر جو تیرتا تھا پھول سا بن کر نسیم
جسم اس کا، زیرِ آبِ نہر بھی اچھا لگا

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment