وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا
بھوک اتنی تھی کہ مجھ کو زہر بھی اچھا لگا
چھوڑ کر جس کو بہت ہی خوش ہوا تھا میں کبھی
دیکھ کر دنیا مجھے وہ شہر بھی اچھا لگا
اجنبی لگتی تھی اپنے وقت کی ہر ایک چیز
سطح پر جو تیرتا تھا پھول سا بن کر نسیم
جسم اس کا، زیرِ آبِ نہر بھی اچھا لگا
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment