Friday, 29 April 2016

سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی

سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی
بے نتیجہ بے ثمر جنگ و جدل سود و زیاں
ساری جیتیں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبار زرگری
سب کی دہشت ایک جیسی سب کی گھاتیں ایک سی
اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک ہیں اب ساری ذاتیں ایک سی
ایک ہی رخ کی اسیری خواب ہے شہروں کا اب
ان کے ماتم ایک سے ان کی براتیں ایک سی
ہوں اگر زیرِ زمیں تو فائدہ ہونے کا کیا
سنگ و گوہر ایک ہیں پھر ساری دھاتیں ایک سی
اے منیرؔ آزاد ہو اس سحر یک رنگی سے تو
ہو گئے سب زہر یکساں سب نباتیں ایک سی

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment