Saturday 23 April 2016

اک سمندر ہے اور بھنور کتنے

اک سمندر ہے اور بھنور کتنے 
جانے درپیش ہیں سفر کتنے
وہ زمانے تیری رفاقت کے
آج لگتے ہیں مختصر کتنے
ہم کو اس راہ گزارِ ہستی میں 
سکھ کے سائے ملے مگر کتنے
حرفِ حق کی تلاش میں اکثر
لوگ پھرتے ہیں در بدر کتنے
موت کا مدعا نہیں کھلتا 
دل میں بیٹھے ہوئے ہیں ڈر کتنے
اک قلم ہے ہزار تحریریں 
ایک رستے میں ہیں سفر کتنے
ہم سمجھتے ہیں باخبر جن کو 
وہ بھی ہوتے ہیں بے خبر کتنے

کرامت بخاری

No comments:

Post a Comment