اک سمندر ہے اور بھنور کتنے
جانے درپیش ہیں سفر کتنے
وہ زمانے تیری رفاقت کے
آج لگتے ہیں مختصر کتنے
ہم کو اس راہ گزارِ ہستی میں
حرفِ حق کی تلاش میں اکثر
لوگ پھرتے ہیں در بدر کتنے
موت کا مدعا نہیں کھلتا
دل میں بیٹھے ہوئے ہیں ڈر کتنے
اک قلم ہے ہزار تحریریں
ایک رستے میں ہیں سفر کتنے
ہم سمجھتے ہیں باخبر جن کو
وہ بھی ہوتے ہیں بے خبر کتنے
کرامت بخاری
No comments:
Post a Comment