Saturday 30 April 2016

غلط معانی دئیے جاتے ہیں زیر لب تبسم کو

غلط معانی دئیے جاتے ہیں زیرِ لب تبسم کو 
سمجھ پاۓ نہ اب تک لوگ اس خاموش قلزم کو 
بڑا دھوکا دیا ہم کو ہماری خوش خیالی نے 
نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے نگاہوں کے تصادم کو
محبت میں خطائیں ایک جانب سے نہیں ہوتیں 
نہ تم الزام دو ہم کو، نہ ہم الزام دیں تم کو 
زباں خاموش، ماتھے پر شکن، آنکھوں میں افسانے 
کوئی سمجھائے کیا کہتے ہیں اس طرزِ تکلم کو 
تمہیں ناراض ہونے کا سلیقہ بھی نہیں آتا 
شکن ماتھے پی ڈالو، اور روکو اس تبسم کو 
زمانہ ہو گیا اقبالؔ ہم اک ساتھ رہتے ہیں 
تعجب ہے سمجھ پاۓ نہ تم ہم کو، نہ ہم تم کو 

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment