خیالِ مرگ کے آتے ہی ڈر گیا میں تو
خود اپنی موت سے پہلے ہی مر گیا میں تو
سجھائی کچھ نہیں دیتا اس اندھیرے میں
میں قبر میں تھا کہ کمرے میں ڈر گیا میں تو
تیرے وصال کی خواہش مجھے سنوارتی ہے
کسی نے پوچھا نہیں حال مجھ مسافر کا
کسی نے روکا نہ پھر بھی ٹھہر گیا میں تو
کسی نے دیکھا نہیں میرا شاخ پر ہونا
ہوا چلی بھی نہیں اور بِکھر گیا میں تو
یہ کون پل کے لیے میرے سائے میں ٹھہرا
خزاں کی رُت میں بھی پھولوں سے بھر گیا میں تو
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment