Tuesday 26 April 2016

ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے

ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے 
مجھ میں کوئی اڑنے کو پر تولتا ہے
کوئ تو ہے جو تلخ سمندر کی تہ میں 
چپکے چپکے میٹھا دریا گھولتا ہے
کنجِ چشم سے کنجِ لب تک آتے ہوئے 
ڈھلتا آنسو لمحہ لمحہ بولتا ہے
سانس میں ریت کی لہریں کروٹ لیتی ہیں 
اب میرے لہجے میں صحرا بولتا ہے
جیسے بوندیں دل پر دستک دیتی ہوں 
جیسے کوئی دروازہ سا کھولتا ہے

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment