ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے
مجھ میں کوئی اڑنے کو پر تولتا ہے
کوئ تو ہے جو تلخ سمندر کی تہ میں
چپکے چپکے میٹھا دریا گھولتا ہے
کنجِ چشم سے کنجِ لب تک آتے ہوئے
سانس میں ریت کی لہریں کروٹ لیتی ہیں
اب میرے لہجے میں صحرا بولتا ہے
جیسے بوندیں دل پر دستک دیتی ہوں
جیسے کوئی دروازہ سا کھولتا ہے
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment