Sunday 24 April 2016

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے

عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں رکھتے
سر رکھتے ہیں، سر میں نہیں سودائے محبت
دل رکھتے ہیں، دل میں کوئی ارماں نہیں رکھتے
نفرت ہے کچھ ایسی انہیں آشفتہ سروں سے
اپنی بھی وہ زلفوں کو پریشاں نہیں رکھتے
رکھنے کو تو رکھتے ہیں خبر سارے جہاں کی
اک میرے ہی دل کی وہ خبر ہاں نہیں رکھتے
گھر کر گئیں دل میں وہ محبت کی نگاہیں
ان تیروں کا زخمی ہوں جو پیکاں نہیں رکھتے
دل دے کوئی تم کو تو کس امید پر اب دے
تم دل تو کسی کا بھی مِری جاں نہیں رکھتے
رہتا ہے نگہبان مِرا ان کا تصور
وہ مجھ کو اکیلا شبِ ہِجراں نہیں رکھتے
دشمن تو بہت حضرتِ ناصح ہیں ہمارے
ہاں دوست کوئی آپ سا ناداں نہیں رکھتے
دل ہو جو پریشان تو دم بھر نہیں ٹھہرے
کچھ باندھ کے تو گیسوئے پیچاں نہیں رکھتے
گو اور بھی عاشق ہیں زمانے میں بہت سے
بیخودؔ کی طرح عشق کو پنہاں نہیں رکھتے

بیخود دہلوی

No comments:

Post a Comment