چاندی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے
چند شکستہ زِینوں سے اور کچھ گِرتی دیواروں سے
آؤ کھُلی مُحراب کے نیچے بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں
دل کو وحشت سی ہوتی ہے گھُٹے گھُٹے بازاروں سے
میں نے اپنا کمرہ نِچلی منزل پر تبدیل کیا
رات نمائش گاہ میں گملے بھی موجود تھے پھولوں کے
تازہ خون کی بُو آتی تھی لیکن کچھ فن پاروں سے
ان پہ کبوتر سر نیوڑھائے بیٹھے ہیں خاموش ملول
کل اس شہر کی رونق تھی جن مرمر کے فواروں سے
ایسی قیامت کی سردی میں چاند سے باتیں کون کرے
آؤ ہم اپنی رات گزاریں لفظوں کے انگاروں سے
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment