Saturday 30 April 2016

تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے

تنِ تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے رقیبوں سے غموں سے غمگساروں سے
انہیں میں چھین کر لایا ہوں کتنے دعویداروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
سنے کوئی، تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
پہاڑوں سے گپھاؤں سے بیابانوں سے غاروں سے
ہمارے داغِ دل، زخمِ جگر کچھ ملتے جلتے ہیں
گلوں سے گلرخوں سے مہوشوں سے ماہ پاروں سے
کبھی ہوتا نہیں محسوس، وہ یوں قتل کرتے ہیں
نگاہوں سے کنکھیوں سے اداؤں سے اشاروں سے
ہمیشہ ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے
کنؤوں سے پنگھٹوں سے ندیوں سے آبشاروں سے
نہ آئے پر نہ آئے وہ، انہیں کیا کیا خبر بھیجی
لفافوں سے خطوں سے دکھ بھرے پرچوں سے تاروں سے
زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا
دُسہرے سے دیوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے
کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے فریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے

کیف بھوپالی

No comments:

Post a Comment