خود سری کا بھرم نہ کھُل جائے
آدمی کا بھرم نہ کھل جائے
تیرگی کا طلسم ٹوٹ گیا
روشنی کا بھرم نہ کھل جائے
موت کا راز فاش تو کر دوں
حسن مختار اور دل مجبور
عاشقی کا بھرم نہ کھل جائے
کون دیوانگی کو دے الزام
آگہی کا بھرم نہ کھل جائے
کیجے رہبروں کا کیا شکوہ
گمراہی کا بھرم نہ کھل جائے
امتحان وفا درست، مگر
جور ہی کا بھرم نہ کھل جائے
اے مغنی، غزل ضیاؔ کی نہ چھیڑ
شاعری کا بھرم نہ کھل جائے
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment