جستجو ہی جستجو بن جائیں گے
تجھ سے بچھڑے تو بہت پچھتائیں گے
ذکر سے بھی جن کے کتراتے ہیں لوگ
کل یہ قصے داستاں بن جائیں گے
منتظر آنکھیں لیے بیٹھے رہو
یہ سنا ہے زہر لینے کے لیے
سانپ سڑکوں سے بدن ڈسوائیں گے
اس قدر انجان ہم کو مت سمجھ
ساری باتیں ہم ہی کب دہرائیں گے
پا سکے نہ اب تلک کوئی پتہ
راستے اب اور کیا الجھائیں گے
ایک آشفتہؔ زمانے میں نہیں
اور بھی کتنے تمہیں خوش آئیں گے
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment