Friday, 22 April 2016

ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے

ابتدائے عشق ہے، لطفِ شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے، اضطراب آنے کو ہے
قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبحِ محشر ہمرکاب آنے کو ہے
مجھ تک اس محفل میں پھر جامِ شراب
عمرِ رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
بھر کے ساقی جامِ مے اک اور لا اور جلد لا
ان نشیلی انکھڑیوں میں پھر حجاب آنے کو ہے
ہائے کیسی کشمکش ہے، یاس بھی ہے آس بھی
دَم نکل جانے کو ہے، خط کا جواب آنے کو ہے
خط کے پرزے نامہ بر کی لاش کے ہمراہ ہیں
کس ڈھٹائی سے مِرے خط کا جواب آنے کو ہے
روح گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے
پھر حنائی ہونے والے ہیں مِرے قاتل کے ہاتھ
پھر زبانِ تیغ پر رنگِ شہاب آنے کو ہے
دیکھئے موت آئے فانیؔ یا کوئی فتنہ اٹھے
میرے قابو میں دلِ بے صبر و تاب آنے کو ہے

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment