Thursday 21 April 2016

زندگی تو نے جو بازار سجا رکھا ہے

زندگی تُو نے جو بازار سجا رکھا ہے 
ہر خریدار نے ہنگام بپا رکھا ہے 
اک عقیدت کی نظر گر نہ ملے ہے پتھر 
تُو نے مندر میں جو بھگوان بٹھا رکھا ہے
چند سانسوں کی کہانی ہے ہمارا یہ وجود 
اک دِیا ہم نے ہواؤں میں جلا رکھا ہے 
تُو جو آئے تو طلسمات کے در کھلتے ہیں 
موسمِ گل کو نگاہوں میں بسا رکھا ہے 
دیکھتے کیا ہو مِرے دشت کی ویرانی کو 
شوق سے ہم نے خزاؤں کو سجا رکھا ہے   
آتے جاتے ہوئے موسم بھی ٹھہر جاتے ہیں 
ہم نے اس دل کو سرائے جو بنا رکھا ہے   
شب گزیدہ تیری یادوں سے بہل جاتے ہیں 
تیرگی میں بھی دِیا ہم نے بجھا رکھا ہے

شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment