اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے
شام ڈھل جائے تو رہگیر بھی گھر کو ترسے
خالی جھولی لیے پھِرتا ہے جو ایوانوں میں
میرا شفاف ہنر، عرضِ ہنر کو ترسے
جس جگہ ہم نے جلائے تھے وفاؤں کے دِیے
میری بے خواب نگاہیں ہیں، سمندر شب ہے
وقت تھم تھم کے جو گزرے ہے سحر کو ترسے
جانے ہم کس سے مخاطب ہیں بھری محفل میں
بات دل میں جو نہ اترے ہے اثر کو ترسے
کتنے موسم ہیں کہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں
تیرے آنے کا دِلاسہ ہے، خبر کو ترسے
شبنمی راکھ بِچھی ہے مِرے ارمانوں کی
نقشِ پا تیرے کسی خاک بسر کو ترسے
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment