Friday 29 April 2016

ترا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے

تِرا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے
یہ کیسا جال سا پھیلا ہوا ہے
خوشی سے دے فریبِ زندگانی
کہ تجھ پر اعتبار آیا ہوا ہے
ازل سے ہے پریشاں زندگانی
یہ عقدہ کس کا الجھایا ہوا ہے
دلوں میں فاصلہ اتنا نہیں ہے
زمانہ درمیاں آیا ہوا ہے
بہانے لاکھ ہیں جینے کے باقیؔ
مگر دل ہے کہ گھبرایا ہوا ہے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment