ہم کہاں شیریں سخن ہیں، تلخیاں اتنی کہ بس
یوں اڑائیں وقت نے بھی دھجیاں اتنی کہ بس
مفلسوں کے آرزو بھی حسرتوں کی آگ ہے
اب جلائی جا رہی ہیں لڑکیاں اتنی کہ بس
اک ذرا سا لب ہلے اور کتنے اپنے کٹ گئے
اب تو یاری دشمنی سب ایک سی لگنے لگی
کر چکے یاروں سے ہم بھی یاریاں اتنی کہ بس
مہتاب قدر
No comments:
Post a Comment