Thursday 28 April 2016

دنیا بنی تو حمد و ثنا بن گئی غزل

دنیا بنی تو حمد و ثنا بن گئی غزل
اترا جو نور، نورِ خدا بن گئی غزل
گونجا جو نادِ برَہم، بنی رقصِ مہر و ماہ
ذرے جو تھرتھرائے، صدا بن گی غزل
چمکی کہیں جو برق تو احساس بن گئی
چھائی کہیں گھٹا، تو ادا بن گئی غزل 
آندھی چلی تو قہر کا سانچے میں ڈھل گئی
بادِ صبا چلی، تو نشہ بن گئی غزل
حیوان بنے تو بھوک بنی، بے بسی بنی
انسان بنے تو جذبِ وفا بن گئی غزل 
اٹھا جو دردِ عشق تو اشکوں میں ڈھل گئی
بے چینیاں بڑھیں تو دعا بن گئی غزل
زاہد نے پی تو جامِ پناہ بن کے رہ گئی 
رِندوں نے پی تو جامِ بقا بن گئی غزل 
ارضِ دکن میں جان، تو دلی میں دل بنی 
اور شہرِ لکھنؤ میں حِنا بن گئی غزل
دوہے، رباعی نظم سبھی طرزؔ تھے مگر
اصنافِ شاعری کا خدا بن گئی غزل 

گنیش بہاری طرز

No comments:

Post a Comment