Sunday 24 April 2016

اتنی سی بات کا اتنا بڑا افسانہ بنا

اتنی سی بات کا، اتنا بڑا افسانہ بنا
کوئی دیوانہ ہوا ہے، کوئی دیوانہ بنا
وہ زیارت گہِ مجنوں بہت آباد ہوئی
اپنی وحشت کیلئے اب کوئی ویرانہ بنا
یا مِرے کندھوں پہ رکھ پھر وہی عیسیٰ کی صلیب
یا تو پھر میری طبیعت کو غلامانہ بنا
جلنے کے مزے میں مزا کیا ہے، جلو اور جیو
زندگی جس کو نہ راس آئی وہ پروانہ بنا
اجرتِ ہجر نہ مانگ، اپنا گریبان نہ بیچ
عشق کرنا ہو تو کر، عشق کو پیشہ نہ بنا
کھڑکیاں بند نہ کر، دل کی دکانیں نہ جلا
بمبئی جیسے حسیں شہر کو صحرا نہ بنا
مکتبِ عشق کا یہ پہلا سبق ہے راہیؔ
ہاتھ کٹوا لے، مگر ہاتھ کو پیالہ نہ بنا

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment