Wednesday 27 April 2016

مرے دل تلک نہ پہنچے تری چشم سرمہ سا سے

مِرے دل تلک نہ پہنچے تِری چشمِ سُرمہ سا  سے
وہ کنایہ ہائے نازک جو لچک گئے حیا سے
میں یہ غور کر رہا ہوں تجھے مانگ کر خدا سے
مِرا مدعا پشیماں نہ ہو تیرے مدعا سے
میں خدا کو پُوجتا ہوں، میں خدا سے رُوٹھتا ہوں
یہ وہ نازِ بندگی ہے،۔ جسے پوچھئے خدا سے
مِری گُمرہی سے رستے، مِری خستگی سے منزل
مِری داستاں مرتب،۔ مِرے نقش ہائے پا سے
کبھی وہ بھی زندگی تھی کہ خدا خجل تھا مجھ سے
کبھی یہ بھی زندگی ہے کہ خجل ہوں میں خدا سے
تُو وہ زلفِ شانہ پردر، جسے خوف ہے ہوا کا
میں وہ کاکُلِ پریشاں جو سنور گئی ہوا سے
جو یہی رہیں گے تیور تو چھُپے  گی کیا محبت 
کبھی ہم خفا خفا سے،۔ کبھی تم خفا خفا سے
ابھی ذہنِ مظہرؔی پر ہے طفُولیت کا عالم
کہ مِلا نہ جب کھِلونا تو مچل گئے خدا سے

جمیل مظہری

No comments:

Post a Comment