قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے
ہمارے سر پہ یہ جو آسماں رکھا ہوا ہے
تِری آنکھوں میں کیوں جھلکا نہیں رنگِ تمنا
تِرے سینے میں دل کیا رائیگاں رکھا ہوا ہے
تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی
کسی منظر میں بھی تا دیر رکتا ہی نہیں میں
یہ چشمہ آنکھ کا میں نے رواں رکھا ہوا ہے
مِرے الفاظ کو کُندن بنا دے گا کسی دن
زباں کی تِہ میں جو آتش فشاں رکھا ہوا ہے
وہ جو دِکھلا رہا ہے ہم کو دو آنکھوں سے دنیا
اسی نے ہم کو ہم سے ہی نہاں رکھا ہوا ہے
یہی تو ہے دلیل اس کی اماں بخشی کی رحمانؔ
کہ اس نے ہم کو اب تک بے اماں رکھا ہوا ہے
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment