Friday 22 April 2016

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
خضرؑ کیا جانیں مرگ کی لذت
اس مزے سے وہ آشنا ہی نہیں
شعر وصفِ دہن میں سن کے کہا
ایسا مضموں کبھی سنا ہی نہیں
کس طرح جائیں ان کی محفل میں 
جن کے دل میں ہماری جا ہی نہیں
کیا سنیں گے وہ خلق کی فریاد 
کہتے ہیں جو کوئی خدا ہی نہیں
لذتِ عیشِ وصل کیا جانیں
اس میں حصہ ہمیں ملا ہی نہیں
کل تلک تھا وہ ربط وہ اخلاص
آج وہ شوخ آشنا ہی نہیں
ہے ہمیں اب تو تیری الفت میں
صدمہ وہ جس کی انتہا ہی نہیں
مرنے والوں سے کہتے ہیں وہ امیرؔ
کیا تمہاری کبھی قضا ہی نہیں

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment