مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
خضرؑ کیا جانیں مرگ کی لذت
اس مزے سے وہ آشنا ہی نہیں
شعر وصفِ دہن میں سن کے کہا
کس طرح جائیں ان کی محفل میں
جن کے دل میں ہماری جا ہی نہیں
کیا سنیں گے وہ خلق کی فریاد
کہتے ہیں جو کوئی خدا ہی نہیں
لذتِ عیشِ وصل کیا جانیں
اس میں حصہ ہمیں ملا ہی نہیں
کل تلک تھا وہ ربط وہ اخلاص
آج وہ شوخ آشنا ہی نہیں
ہے ہمیں اب تو تیری الفت میں
صدمہ وہ جس کی انتہا ہی نہیں
مرنے والوں سے کہتے ہیں وہ امیرؔ
کیا تمہاری کبھی قضا ہی نہیں
امیر مینائی
No comments:
Post a Comment