کچھ ایسے زخم بھی درپردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رقیبوں سے بھی چھپائے ہیں
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
بس اک ضمیر بمشکل بچا کے لائے ہیں
اب آ گئے ہیں تو پیاسے نہ جائیں گے ساقی
کوئی ہواؤں سے کہہ دے ادھر کا رخ نہ کرے
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
جہاں کہیں بھی ہم نے صدا دی یہی جواب آیا
یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں
سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ
ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں
انہیں پرائے چراغوں سے کیا غرض اقبالؔ
جو اپنے گھر کے دِیے خود بجھا کے آئے ہیں
اقبال عظیم
No comments:
Post a Comment