Saturday 30 April 2016

کچھ ایسے زخم بھی درپردہ ہم نے کھائے ہیں

کچھ ایسے زخم بھی درپردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رقیبوں سے بھی چھپائے ہیں
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
بس اک ضمیر بمشکل بچا کے لائے ہیں
اب آ گئے ہیں تو پیاسے نہ جائیں گے ساقی
کچھ آج سوچ کے ہم مے کدے میں آئے ہیں
کوئی ہواؤں سے کہہ دے ادھر کا رخ نہ کرے
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
جہاں کہیں بھی ہم نے صدا دی یہی جواب آیا
یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں
سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ
ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں
انہیں پرائے چراغوں سے کیا غرض اقبالؔ
جو اپنے گھر کے دِیے خود بجھا کے آئے ہیں

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment