یہ میں کس شہر کے نواح میں ہوں
روز و شب جیسے قتل گاہ میں ہوں
وقت نے جیسے نظریں پھیری ہیں
اور میں کوششِ نِباہ میں ہوں
راستے بند ہوتے جاتے ہیں
اتنے نادم ہیں دیکھتے بھی نہیں
یوں تو ہر شخص کی نگاہ میں ہوں
کچھ اندھیرے ہیں، کچھ اجالے ہیں
جیسے میں تیری خوابگاہ میں ہوں
بچ نکلتا ہوں ہر بلا سے اگر
اے خدا! میں تِری پناہ میں ہوں
کچھ عجیب حال ہے مِرا اکبرؔ
جیسے میں غیر کی پناہ میں ہوں
اکبر حمیدی
No comments:
Post a Comment