Friday 29 April 2016

ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے

ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے
اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے
ایک زہرابِ غم سینہ سینہ سفر
ایک کردار سب داستانوں کا ہے
کس مسلسل افق کے مقابل ہیں ہم
کیا عجب سلسلہ امتحانوں کا ہے
پھر وہی ہے ہمیں مٹیوں کی تلاش
ہم ہیں اڑتا سفر اب ڈھلانوں کا ہے
کون سے معرکے ہم نے سر کر لیے
یہ نشہ سا ہمیں کن تھکانوں کا ہے
یہ الگ بات وہ کچھ بتائے نہیں
لیکن اس کو پتہ سب خزانوں کا ہے
سب چلے دور کے پانیوں کی طرف
کیا نظارہ کھلے بادبانوں کا ہے
اس کی نظروں میں سارے مقامات ہیں
پر اسے شوق اندھی اڑانوں کا ہے
آؤ بانیؔ کہ خواجہ کے در کو چلیں
آستانہ ہزار آستانوں کا ہے

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment