ہم ہیں منظر سیہ آسمانوں کا ہے
اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے
ایک زہرابِ غم سینہ سینہ سفر
ایک کردار سب داستانوں کا ہے
کس مسلسل افق کے مقابل ہیں ہم
پھر وہی ہے ہمیں مٹیوں کی تلاش
ہم ہیں اڑتا سفر اب ڈھلانوں کا ہے
کون سے معرکے ہم نے سر کر لیے
یہ نشہ سا ہمیں کن تھکانوں کا ہے
یہ الگ بات وہ کچھ بتائے نہیں
لیکن اس کو پتہ سب خزانوں کا ہے
سب چلے دور کے پانیوں کی طرف
کیا نظارہ کھلے بادبانوں کا ہے
اس کی نظروں میں سارے مقامات ہیں
پر اسے شوق اندھی اڑانوں کا ہے
آؤ بانیؔ کہ خواجہ کے در کو چلیں
آستانہ ہزار آستانوں کا ہے
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment