Thursday 28 April 2016

جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے

جلا وطن ہوں مِرا گھر پکارتا ہے مجھے
اداس بام کھلا درد پکارتا ہے مجھے
کسی کی چاپ مسلسل سنائی دیتی ہے
سفر میں کوئی برابر پکارتا ہے مجھے
صدف ہوں لہریں درِ جسم کھٹکٹاتی ہیں
کنارِ آب وہ گوہر پکارتا ہے مجھے
ہر ایک موڑ مِرے پاؤں سے لِپٹتا ہے
ہر ایک میل کا پتھر پکارتا ہے مجھے
پھنسا ہوا ہے مِرے ہاتھ کی لکیروں میں
مِرا ہُمائے مقدر پکارتا ہے مجھے
نہ جانے کیا تھا کہ میں دوریوں میں کھو آیا
وہ اپنے پاس بلا کر پکارتا ہے مجھے
چلی ہے شام شفق رنگ بادباں لے کر
دبیز شب کا سمندر پکارتا ہے مجھے
پروں کا بوجھ جھٹک کر میں اڑ گیا ہوں نسیمؔ
زمین پر مِرا پیکر پکارتا ہے مجھے

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment