Friday 29 April 2016

کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے

کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
مِری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محوِ فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غمِ صد کارواں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں شعلوں کے انبار
بس اے دورِ زماں دیکھا نہ جائے
در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
بھری برسات خالی جا رہی ہے
سرِ ابرِ رواں دیکھا نہ جائے
کہیں تم، اور کہیں ہم، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے
وہی جو حاصلِ ہستی ہے ناصرؔ
اسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment