Wednesday 27 April 2016

اسے کیا خبر ہے

اسے کیا خبر ہے

کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے
وہ اپنے ہی خوابوں، خیالوں میں کھوئی
کبھی جاگتی اور کبھی سوئی سوئی
کوئی اور اِسمِ وفا پڑھ رہی ہے
محبت کے دل میں اترتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے

وہ کیا جانتی ہے
محبت کا آخر یہ کیا سلسلہ ہے
امیدیں کہاں سے جنم لے رہی ہیں
کہاں یہ جنم اپنا دم توڑتا ہے
جو پھول اس کے دل میں اچانک کھِلا ہے
کسی کی بہاروں بھری خواہشوں کی یہ پہلی دعا ہے
اسے کیا پتا ہے
دعا اور خواہش کا سنجوگ کیا ہے
خوشی ہم سے روٹھی ہوئی کس لیے ہے
ہمیں روگ کیا ہے
ارادے بدلتی ہوئی دوستی اور اٹل دشمنی میں
کوئی فرق ہے تو اسے کیا غرض ہے
وہ اپنے ہی خوابوں، خیالوں میں کھوئی
کبھی جاگتی اور کبھی سوئی سوئی
خود اپنی ہی جانب چلی جا رہی ہے
محبت کو پھر بھولتی جا رہی ہے 

فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment