نفس کے لوچ میں رَم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
حیات، ساغرِ سَم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
تِری نگاہ مِرے غم کی پاسدار سہی
مِری نگاہ میں غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
مری ندیم! محبت کی رفعتوں سے نہ گِر
یہ اجتناب ہے عکسِ شعورِمحبوبی
یہ احتیاطِ ستم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
ادھر بھی ایک اچٹتی نظر، کہ دنیا میں
فروغِ محفلِ جَم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
نئے جہان بسائے ہیں فکرِ آدم نے
اب اس زمیں پہ اِرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
مِرے شعور کو آوارہ کر دیا جس نے
وہ مرگِ شادی و غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
ساحر لدھیانوی
No comments:
Post a Comment