Sunday 24 April 2016

تو نے سینے کو جب تک خلش دی نہ تھی تو نے جذبوں کو جب تک ابھارا نہ تھا

تُو نے سینے کو جب تک خلش دی نہ تھی، تُو نے جذبوں کو جب تک ابھارا نہ تھا
میں وہ دریا تھا جس میں کہ لہریں نہ تھیں، میں وہ قلزم تھا جس میں کہ دھارا نہ تھا
تیرے آگے نہ یارانِ خود سر جھکے، تیری چوکھٹ سے بھاگے تو در در جھکے
اس جگہ دل جھکے، اس جگہ سر جھکے، بندگی کے سوا کوئی چارا نہ تھا
اشک موتی نہ تھے، بہہ گئے، بہہ گئے، ہنستے ہنستے یہ تم آج کیا کہہ گئے
یاد کر کے وہ دن ہم بھی چپ رہ گئے، جب ان آنکھوں میں آنسو گوارا نہ تھا
ساز فریاد کے دل نے چھیڑے نہ تھے، ہجر اور وصل کے یہ بکھیڑے نہ تھے
ہم نے دامن کے بخیے ادھیڑے نہ تھے، تم نے زلفوں کو اپنی سنوارا نہ تھا
تجھ میں دریا کوئی کس سہارے چلے، میں جو پچھم، تُو پورب کے دھارے چلے
میری کشتی کنارے کنارے چلے،۔ تیری موجوں کو یہ بھی گوارا نہ تھا
دیکھ پروانوں کے رقصِ بے تاب کو، شمع آنے نہ دے آنکھ میں خواب کو
ایک جھپکی سی آئی تھی مہتاب کو، آنکھ کھولی تو کوئی ستارا نہ تھا
ایک تنور سے شعلے اٹھا کیے،۔ آگ جلتی رہی، لوگ تاپا کیے
دور بیٹھے وہ پہلو بچایا کیے، جن کی قسمت میں کوئی شرارا نہ تھا
دونوں افسانہ خواں گرد محمل کے تھے قیس صحرا کا تھا خضر منزل کے تھے
مظہریؔ بھی غلام اپنے ہی دل کے تھے، ان دِوانوں میں کوئی تمہارا نہ تھا

جمیل مظہری

No comments:

Post a Comment