Sunday 24 April 2016

بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر

بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایا دیکھ کر 
لوگ بھی کتراۓ کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر
ریت کی دیوار میں شامل ہے خونِ زیست بھی 
اے ہواؤ! سوچ کر،۔ اے موجِ دریا! دیکھ کر
اپنے ہاتھوں اپنی آنکھیں بند کرنی پڑ گئیں 
نگہتِ گُل کے جلَو میں گَردِ صحرا دیکھ کر
میرے چہرے پر خراشیں ہیں لکیريں ہاتھ کی 
میری قسمت پڑھنے والے میرا چہرا دیکھ کر

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment