صد چاک ہوا گو جامۂ تن مجبوری تهی، سینا ہی پڑا
مرنے کا وقت مقرر تها، مرنے کے لیے، جینا ہی پڑا
مۓ اس کی نشیلی آنکھوں کی تلخاب سہی، زہراب سہی
لیکن فطرت کچھ چاہتی تھی، دل پیاسا تھا، پینا ہی پڑا
کہتی تهی جنوں جس کو دنیا، بگڑی ہوئی صورت عقل کی تهی
دیتے ہی کہا تها ساقی نے اس جام میں ہے تلخئ عمل
پر مانگ کے واپس کرنے کا موقع ہی نہ تها، پینا ہی پڑا
جب تیشہ و چنگ و سیف و قلم بندوں کو جمیلؔ اس نے بانٹے
اک رِندِ ازل کے حصے میں دو کوزے، اک مِینا ہی پڑا
جمیل مظہری
No comments:
Post a Comment