Saturday, 23 April 2016

اس مرض کو شفا سے کیا مطلب

"درد دل کو دوا سے کیا مطلب"
اس مرض کو شفا سے کیا مطلب
خونِ ارماں سے تو ہوا دل شاد
اب مجھے خوں بہا سے کیا مطلب
عینِ طوفاں میں خود نگر بن جا
ناخدا سے، خدا سے کیا مطلب 
میں گنہ گار ہوں یہ کافی ہے
اب روا، ناروا سے کیا مطلب
بے زبانی زبان ہوتی ہے
خواہش و مدعا سے کیا مطلب
چھپ کے پیتا نہیں ہے مے ساحرؔ
محتسب کی سزا سے کیا مطلب

ساحر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment